حارث قدیر
شہید کشمیر مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت کے سلسلے میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور دنیا کے مختلف ملکوں میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں میں مشعل بردار ریلیاں، کار و بائیک ریلیاں اور کارنر میٹنگز کا سلسلہ عروج پر ہے۔ جموں کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ترقی پسند اور قوم پرست تنظیموں کی جانب سے جھنڈے، بینر اور پوسٹر آویزاں کیے جا رہے ہیں۔ مقبول بٹ شہید کی تصاویر کو دیواروں پر پینٹ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
11فروری کو جموں کشمیر کے تمام ضلعی اور تحصیل صدر مقامات پر بڑے اجتماعات منعقد کیے جا ئیں گے، جن میں لاکھوں کی تعداد میں مقبول بٹ شہید کے چاہنے والے شرکت کریں گے۔ اسی طرح بیرون ریاست دنیا کے مختلف ملکوں میں تقریبات منعقد کی جائیں گی، بھارتی سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔
مقبول بٹ شہید کو گزشتہ 7دہائیوں کی جموں کشمیر کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ 1947میں جموں کشمیر کی سامراجی تقسیم کے بعد مقبول بٹ شہید پہلے رہنما بن کر ابھرے جنہوں نے جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ وہ اس خطے میں غلامی، جبر اور استحصال کے خلاف بغاوت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو آزادی کی جدوجہد میں منظم کرنے کے ساتھ ساتھ عسکری محاذ پر گوریلا جدوجہد کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ابتدائی کوششیں کیں۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے اگلی صفوں پر رہتے ہوئے ہر بار خود کو قربانی کے لیے تیار کیا اور بالآخر جدوجہد آزادی کے دوران پھانسی کا پھندا چوم کر وہ جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کا استعارہ بن گئے۔ آج جموں کشمیر کی آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کرنے والا کوئی فرد ایسا نہیں ہے، جو مقبول بٹ شہید کی جدوجہد کو مشعل راہ قرار نہ دیتا ہو، یا ان کو ایک قومی ہیرو کے طورپر نہ شناخت کرتا ہوں۔ مقبول بٹ شہید اس خطے میں اب آزادی کی جدوجہد کی ایسی علامت بن چکے ہیں، جن کے کردار کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’شہید کشمیر‘ قرار دیا جاتاہے۔
مقبول بٹ شہید 18فروری1938کو وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے گاؤں تریہگام میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سرینگر منتقل ہوئے۔ سیاسی جدوجہد میں بھی اپنی کالج کی تعلیم کے دوران ہی حصہ لینا شروع کیا۔ اسی جدوجہد کی وجہ سے ہی انہیں سرینگر چھوڑنا پڑا،اور 1958میں پاکستان کے شہر پشاور میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے منتقل ہو گئے۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو ادب کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی وہ مقامی اخبارات میں بطور صحافی بھی کام کرتے رہے۔ 1961میں انہوں نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بنیادی جمہوریت(بی ڈی) کے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1965میں ’محاذ رائے شماری‘ کے نام سے سیاسی تنظیم کا قیام عمل میں لایاگیا، جس میں صحافتی تجربے کی بنیاد پر نشرواشاعت کا شعبہ مقبول بٹ شہید کو تفویض کیا گیا۔
مقبول بٹ شہید جموں کشمیر کی جدوجہد آزادی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے دنیا بھر کی تحریکوں کا بغور تجزیہ کر رہے تھے۔ اس وقت لاطینی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کا معروف طریقہ گوریلا جدوجہد کو سمجھا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ مقبول بٹ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ محاذ رائے شمار کا انڈر گراؤنڈ عسکری فرنٹ ’نیشنل لبریشن فرنٹ‘ (این ایل ایف) کے نام سے قائم کیا اور عسکری جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران وہ دو بار سیز فائر لائن عبور کر کے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر گئے۔ جون 1966میں مقبول بٹ شہید دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سیز فائر لائن عبور کر کے کپواڑہ میں گئے۔ وادی میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر کے اغواء اور قتل کے الزام میں انہیں گرفتار کیا گیا اور دو سال بعدانہیں پھانسی کی سزا دی گئی۔
اس جدوجہد میں مقبول بٹ شہید کو سیز فائر لائن کے دونوں اطراف پاکستان اور بھارت کی ریاستوں کی جانب سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ستمبر1968میں جب سرینگر کے عدالت نے انہیں سزائی موت سنائی تو دو ماہ بعد وہ جیل سے ایک سرنگ کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جیل سے فرار ہو کر جب وہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پہنچے تو انہیں گرفتار کر کے مظفرآباد میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔ قید سے رہائی پانے کے بعد مقبول بٹ شہید نے ایک بار پھر جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے کے لیے بھارتی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنایا۔
یہ ہائی جیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے بھی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ مقبول بٹ شہید کے ساتھیوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ تاہم پاکستان میں اس ہائی جیک کو بھارتی سازش قرار دیا گیا، جبکہ بھارت نے ابتدا میں اسے پاکستانی ریاست کی سازش قرار دیا، اور بعد ازاں پاکستانی سازش کو پاکستان کے ہی خلاف استعمال کرنے کا کریڈٹ بھی لے لیا۔
ہائی جیک کے رد عمل میں بھارت نے پاکستان پراپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی، جس کا پاکستانی فوج کو سنگین نقصان ہوا۔ بنگلہ دیش تک رسائی کے لیے پاکستانی فضائیہ کے لیے بھارتی فضائی حدود استعمال کرنا ناگزیر تھا۔ فضائی حدود پر پابندی بنگال پر پاکستانی ریاست کی گرفت کمزور کرنے میں ایک فیصلہ کن کڑی قرار دی جاتی ہے۔
مسافروں کو بحفاظت چھوڑنے کے بعد مطالبات پورے نہ ہونے پر ’گنگا‘ نامی طیارے کو لاہور ایئرپورٹ پر نذر آتش کر دیا گیا۔ ہائی جیکروں سمیت مقبول بٹ شہید اور این ایل ایف و محاذ رائے شماری کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں بند کیا گیا۔ بعد ازاں 7افراد پر لاہور میں مقدمہ چلایا گیا اور ہاشم قریشی کو 7سال سزا سنائی گئی، جبکہ دیگر کو رہا کر دیا گیا۔
مقبول بٹ شہید نے ایک بار پھر سیز فائر لائن عبور کرنے کا فیصلہ کیا اور 1976میں وہ ایک بار پھر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر پہنچ گئے۔مقبول بٹ شہید کے دوبارہ سیز فائر لائن عبور کرنے پر ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ان کی جدوجہد کو قبولیت ملنا شروع ہو گئی تھی۔ عسکری جدوجہد کو اپنے زور بازو پر منظم کرنے کے لیے انہوں نے بینک لوٹنے کی کوشش کی، جس دوران ایک بینک ملازم کی موت ہو گئی۔ مقبول بٹ شہید کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیااور عدالت نے انہیں دوسری مرتبہ موت کی سزا سنا دی۔
ان کی گرفتاری نے این ایل ایف کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا۔ ان کے ساتھیوں نے برطانیہ میں محاذ رائے شماری کا برطانیہ چیپٹر ’جموں کشمیر لبریشن فرنٹ‘کے نام سے قائم کیا اور مقبول بٹ شہید کی رہائی کے لیے کوششیں برطانیہ میں شروع کر دی گئیں۔ اسی دوران بھارتی سفارتکار روندرا مہاترے کو اغواء کیاگیا اور مقبول بٹ کی رہائی سمیت تاوان کی رقم بھی طلب کی۔ تاہم مانگیں پوری نہ ہونے پر مہاترے کو قتل کر دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے عجلت میں موت کی سزا کی ہائی کورٹ سے تصدیق کے بغیر ہی مہاترے قتل کے ردعمل کے طور پر 11فروری1984کو پھانسی کی سزا دے دی۔ مقبول بٹ شہید کا جسد خاکی بھی ان کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں ہی سپرد خاک کر دیا گیا۔
مقبول بٹ شہید کی اس عظیم قربانی نے جہاں جموں کشمیر میں سیز فائر لائن کے دونوں اطراف آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی جلا بخشی۔ دونوں اطراف جدوجہد کرنے والے نوجوانوں نے جموں کشمیر کی آزادی اور سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا شروع کر دیا۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوانوں کی شمولیت دن بدن بڑھنا شروع ہو گئی۔
مقبول بٹ شہید کو جہاں آج ماننے والے بے شمار ہیں، وہیں جموں کشمیر کی دعویدار دونوں ریاستوں کی جانب سے بھی مقبول بٹ شہید کی جدوجہد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص پاکستانی ریاست کی جانب سے مقبول بٹ شہید کی فکر کو دھندلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ آج بھی دائیں اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے قومی آزادی کے داعی مقبول بٹ شہید کے افکار اور نظریات کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ تاہم مقبول بٹ شہید نے اپنے افکار کا ہمیشہ واضح اور کھل کر اظہار کیا ہے۔
مقبول بٹ شہید اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں استحصال اور غلامی کے خلاف جب بھی کوئی تحریک شروع کی گئی اسے دبانے کے لیے اقتدار اور اختیار پر قابض حکمرانوں نے ہمیشہ قانون کی لغت”سازش“ کا سہارا لیا ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں فتح مظلوم کی ہوتی ہے اور ظلم کی عمارت مظلوم عوام کی انقلابی جدوجہد کے مقابلے میں دھڑام سے زمین بوس ہوتی ہے۔ میں نے ہمیشہ خود ستائی سے نفرت کی ہے۔ اب جبکہ میرے بے باک کردار کو غلط رنگ دینے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے تو مجھے یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ میں نے زندگی کے ہر موڑ پر حق و انصاف کا ساتھ دیا ہے اور ظلم و استحصال کے خلاف مصروفِ جنگ عوام کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس جنگ میں‘میں مظلوم عوام کا نقیب اور مدعی رہا ہوں۔“
مقبول بٹ شہید کو جرأت اور بہادری کے حوالے سے بھی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے جرأت مندانہ کردار کے نہ صرف ان کے حامی بلکہ ان کے بدترین مخالفین بھی معترف ہیں۔ پھانسی کے پھندے پر جھولتے وقت بھی ان کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں دیکھی گئی۔ نہ ہی انہوں نے آخری وقت تک اپنی جدوجہد پر کسی قسم کا کوئی پچھتاوا محسوس کیا۔ پھانسی سے چند روز قبل ایک صحافی کے تلخ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”اگر زندگی میں تحریک کی کامیابی نہ ملنے کی صورت میں جدوجہد رائیگاں جاتی تو کارل مارکس اور یسوع مسیح کا شمار دنیا کے ناکام افراد میں ہوتا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ میرے لیے سوائے اس کے فی الوقت اور کوئی راستہ نہیں کہ خود کو وقت کے بے رحم ہاتھوں کے سپرد کردوں اور اس موقع کا انتظار کروں جب تعصب، بدنیتی، ظلم، استحصال اور مکروفریب کے بادل چھٹ جائیں گے اور حق و انصاف کی روشنی عام ہو جائے گی۔“
مقبول بٹ شہید جہاں غلامی کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے ایک بے باک سپاہی تھے، وہیں انہوں نے ماضی کی فرسودہ روایات، سرمایہ دارانہ استحصال اور مذہبی رجعت کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ وہ دنیا بھر میں بائیں بازو کی سرمایہ دارانہ مخالف تحریکوں سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ وہ اپنی روشن فکر کا کھل کر اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ مقبول بٹ نے گنگا ہائی جیک کیس کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں دیے گئے تحریری بیان میں لکھا تھا کہ ”سچ یہی ہے کہ میں نے مذہبی رجعت، غلامی، سرمایہ دارانہ استحصال، دولت پسندی، فرسودگی، ظلم، جبر اور منافقت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ اور پاکستانی جرنیل شاہی جموں کشمیر کو لمبے عرصے تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھ سکیں گے۔ ہمارے لیے آزادی کے معنی صرف بیرونی قبضے کا خاتمہ نہیں ہے۔ ہمیں غربت، بھوک، جہالت، بیماری اور رجعت سے آزادی درکار ہے۔معاشی اور سماجی محرومی سے چھٹکارا حاصل کر کے ہم آزادی لے کر رہیں گے۔“
یہی وجہ ہے کہ مقبول بٹ شہید نے قومی آزادی کی جدوجہد کو اپنی قوم کی حکمران اشرافیہ سے مل کر منظم کرنے کی بجائے جلد ہی نتائج اخذ کیے اور اپنے طبقے کی بنیاد پر جدوجہد آزادی کو اپنے زور بازو پر منظم کرنے کی جدوجہد کی۔ دنیا کے بڑے انقلابیوں کی طرح اگلی صفوں میں رہ کر قائدانہ کردار ادا کیا اور سب سے پہلے خود کو اس جدوجہد میں قربانی کے لیے پیش کیا۔
آج مقبول بٹ شہید کے چاہنے والے جموں کشمیر سمیت دنیا بھر میں ان کی اس عظیم قربانی کو نہ صرف یاد کرتے ہیں، بلکہ ان کے یوم شہادت کو تجدید عہد کے طور پر مناتے ہیں کہ مقبول بٹ کے افکار کی بنیاد پر ایک آزاد، خودمختار، سیکولر اور سوشلسٹ جموں کشمیر کے قیام تک اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھا جائے گا۔