پرویز ہودبھائی
22 جولائی کو بھارت نے اپنا خلائی مشن ”چندریان 2“ چاند کے سفر پر روانہ کر دیا۔ چاند پر پانی کی تلاش میں بھیجا جانے والا یہ مشن سائنس اور انجینئرنگ کے شعبے میں بھارتی ترقی کا زبردست اظہار ہے۔ اس خلائی سفر کا مطلب ہے کہ ہندوستان کا شمار اب ان مٹھی بھر ملکوں میں ہونے لگا ہے جو تجارتی، تذویراتی اور سائنسی مقاصد کے لئے نظامِ شمسی کا کھوج لگا رہے ہیں۔
قدرتی سی بات ہے کہ پاکستان کے شہری بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنس کے میدان میں (یاد رہے کہ خلائی تحقیق سائنس کا محض ایک رخ ہے) وہ کہاں کھڑے ہیں؟ اگر اس میدان میں ان کو کوئی قابلِ رشک مقام حاصل نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کہ اس میدان میں بھارت پاکستان سے اس قدر آگے کیوں ہے؟
دریں اثنا بھارت کی ہندو بنیاد پرست حکومت’چندریان 2‘ کی کامیابی کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے اور یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ چندریان مہا بھارت کے دور سے جاری ہندوؤں کی عظیم سائنسی دریافتوں کی ہی اگلی کڑی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چندریان کی کامیابی کا سہرا مودی کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ ذرا سوچئے اگر ہم تاریخ کے پہئے کو ستر اسی سال پیچھے کی طرف گھما سکتے اور فرض کیجئے ستر اسی سال پہلے ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی جگہ نریندرا مودی ہوتے تو آج ہندوستان علمِ فلکیات کی بجائے علم ِجوتش پر تحقیق کر رہا ہوتا۔ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں گیانی تو بے شمار ہوتے مگر ریاضی دان چند ہی ملتے۔ رشیوں کی تو فوج ظفر موج ہوتی مگر طبیعات دان خال خال ہی پائے جاتے۔ چندریان کو خلا میں بھیجنے کی بجائے بھارتی سائنس دان راون کے مصنوعی ویمان بنانے پر تحقیق میں مصروف ہوتے۔
یہ لامذہب پنڈت نہرو تھے جن کی وجہ سے ہندوستان میں یورپی جدیدیت کو تسلیم کیا گیا۔ اسی وجہ سے ہندوتوا بریگیڈ اتنی نفرت اپنے ملک کے مسلمانوں اور مسیحیوں سے نہیں کرتی جتنی پنڈت نہرو سے۔ نہرو ”سائنسی مزاج“ اپنانے پر زور دیتے تھے۔ یہ انوکھی اصطلاح انہوں نے دورِ اسیری کے دوران تخلیق کی تھی۔ اسی کارن بھارت میں سائنس پروان چڑھی۔ نہرو سے بھی پہلے راجہ رام موہن رائے (1772-1832ء) جیسے اصلاح پسند اس راستے کی نشاندہی کر چکے تھے۔
کیا پاکستان بھی کبھی چاند پر پہنچ پائے گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے پاس کس پائے کے سائنس دان ہیں اور ضروری ہے کہ ہمارے ہاں سائنس کے لئے موزوں ماحول تشکیل پائے۔ ہمارے ہاں کوئی نہرو تو خیر کبھی بھی پیدا نہیں ہوا مگر جنرل ضیاکے دور میں ایک زبردست دھچکا اس وقت لگا جب سر سید احمد خان کی نیم جاں جدت پسندی کو اقبال کے شاہینوں نے نوچ ڈالا۔
اصلاح احوال کے لئے اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر نصف درجن عمارتیں یہ سوچ کر تعمیر کی گئی تھیں کہ ان میں سائنس کی ترویج کے لئے ادارے قائم کئے جائیں گے۔ آج اگر انہیں بند کر دیا جائے تو یقین مانیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ ما سوائے زراعت اور بائیو ٹیکنالوجی کے، ہمارے ہاں سائنس کے ہر شعبے میں حالت نا گفتہ بہ ہے۔ نیشنل سپیس ایجنسی آف پاکستان یعنی ’سپارکو‘ کی ویب سائٹ پر جائیں تو خلائی تحقیق کی بابت یہ ویب سائٹ خاموش ہے۔ کسی منصوبے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
اپنے بھارتی ہم منصب اسرو (ISRO) سے ایک سال قبل قائم ہونے والے سپارکو نے ماضی کے اندر کی گئی کچھ کاروائیوں کا ذکر اپنی ویب سائٹ پر کیا ہے۔ اس کے علاوہ موسمی حالات کی خبر دینے والے ”رہبر“ نامی راکٹوں کا ذکر موجود ہے جو امریکہ نے دیے اور 1962-1972ء کے عرصے میں چھوڑے گئے تھے۔ تازہ ترین کاروائی 9 جولائی 2018 ء کو ہوئی جب سی پیک کی پیش رفت پر نظر رکھنے کے لئے چین نے دو ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹ چھوڑے۔ ان میں سے ایک مقامی طور پر ڈیزائن کرنے کے بعد سپارکو نے خود تیار کیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد ہی ریموٹ سینسنگ تھا۔
اِدھر ُادھر کی باتیں پوسٹ کر کے اس بے کار کی ویب سائٹ پر بس خالی جگہیں پر کی گئی ہیں اور دبے دبے لفظوں میں حتف اور شاہین تھری میزائلوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے مگر ان میزائلوں کی تیاری میں سپارکو کا کیا کردار تھا، ویب سائٹ اس بابت خاموش ہے۔ ویب سائٹ کی مدد سے سپارکو کے مندرجہ ذیل گزشتہ چار چیئرمین حضرات اور ان کی تعلیمی قابلیت کا بھی پتہ چلتا ہے:
میجر جنرل رضا حسین (2001-2010ء، بی ایس سی)
میجر جنرل احمد بلال حسین (2010-2016 ء، ایم ایس سی)
میجر جنرل قیصر انیس خرم (2016-2018ء، بی ایس سی)
میجر جنرل عامر ندیم (2018 ء سے تا حال‘بی ایس سی)
جب خلائی شعبے میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی موجود نہیں تو ایسے میں نوجوان سائنس دان کدھرجائیں؟ آئے روز یہ لوگ کسی عظیم سائنسی دریافت کی خبر پڑھتے ہیں۔ مریخ اور مشتری کے درمیان سے گزرنے والے چھوٹے چھوٹے ایسٹرائڈز پر خلائی جہاز اتر رہے ہیں، کہیں سے نت نئے سیارے دریافت ہونے کی خبریں آ رہی ہیں، دور کہکشاؤں میں بلیک ہول آپس میں ٹکرا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس ماحول میں ہمارے تین معروف ترین سائنس دان کون سا منجن بیچ رہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
پہلے صاحب کو اب بموں اور میزائلوں میں پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہی۔ آج کل وہ کینسر کا مذہب کی مدد سے علاج دریافت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عورتوں کو ماہواری سے نپٹنے کے لئے مفید مشورے دے رہے ہیں۔
ہمارے دوسرے اہم سائنس دان صاحب نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں (یا شایدبھگت چکے ہیں)۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تھر کول منصوبے پر ساڑھے چار ارب روپے لگا دئے مگر بجلی کا ایک واٹ پیدا نہیں کیا۔ ایک بار اگر ریکو ڈک کی تحقیقات شروع ہوئیں اور ٹیتھیان کاپر میں ان کا کردار سامنے آیا تو ممکن ہے انہیں مزید مشکلات گھیرے میں لے لیں۔ البتہ ریکو ڈک کے مسئلے پر پاکستان کو 5.9 ارب ڈالر جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمارے تیسرے معروف سائنس دان آج کل پھر سے حکومت کی چھپر چھاؤں میں واپس آ گئے ہیں مگر وہ اس بات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے کہ ان کے انسٹی ٹیوٹ پر اربوں خرچ ہوئے مگر وہ ایک بھی قابلِ ذکر فارماسیوٹیکل پراڈکٹ کیوں پیش نہیں کر سکے۔
اپنے صاحب ِعلم بڑوں سے رہنمائی کے فقدان کے باوجود کچھ قابل پاکستانی بچوں نے اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ ان میں سے کچھ سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان سے مل کر خوش بھی ہوا اور بہت پر جوش بھی ہوں۔ بارہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں ان بچوں نے سٹین فورڈ یونیورسٹی، ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور کورسیرا کی جانب سے پیش کیے جانے والے آن لائن سائنسی مواد کو کھنگال ڈالا ہے۔ ان کے اس کارنامے میں ان کے ماحول، اساتذہ حتیٰ کہ والدین کا بھی کوئی ہاتھ نہیں۔ کچھ دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ کا تعلق شہروں سے ہے۔ ان کے اندر ایک قدرتی صلاحیت ہے۔ اس قدرتی صلاحیت کی بنیاد پر وہ کہاں تک جائیں گے؟
سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے وزیر فواد چوہدری نے مجھے بتایا کہ وہ ایسے ہی ہونہار طلبہ کے لئے 1500 اسٹیم (STEM) اسکول شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم دی جائے گی۔ امید ہے کہ ان اسکولوں میں حقدار کو ہی داخلہ ملے گا اور معجزانہ طور پر متعلقہ مضامین پڑھانے کے لئے مناسب اساتذہ بھی مل جائیں گے۔ فواد چوہدری کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر تعلیمی بورڈز کے رٹا سسٹم کے تحت بچوں کو پاس کیا جاتا رہا تو ناکامی کے امکانات سو فیصد ہیں۔ ایک احمق کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ایک دانا شخص پر رائے دے۔ کوئی متبادل ڈھونڈنا چاہئے۔
ایک اور اچھی خبر ہے میرے پاس۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز پیسہ تو بہت کماتے ہیں مگر اسے شاید عقل مندی سے خرچ نہیں کرتے تھے۔ گو شنید ہے کہ اب تھوڑی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا“ کا فلوریڈا میں گزشتہ جون میں سالانہ اجلاس تھا۔ اس اجلاس میں ایک ایسا ادارہ بنانے کی اپیل کی گئی جو ریاضی اور فزکس میں غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کی نشاندہی بھی کرے اور ان کی مدد بھی۔ امید ہے یہ اپیل حقیقت کاروپ دھارے گی۔
اگر چین نے اپنے کسی راکٹ پر لفٹ نہ دی تو پاکستان کا چاند پر پہنچنا لمبے عرصے تک ممکن نظر نہیں آتا۔ اس پر آنسو بہانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہمیں اس سے بھی اہم مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا ہے تو ہر قدم پر ایک پائیدار سائنسی بنیاد ڈالنا ہو گی۔ ایسا تب ہی ممکن ہے اگر سائنسی اندازِ فکر کو پروان چڑھایا جائے اور غیر سائنسی سوچوں کو دفن کر دیا جائے۔ اس کا ایک علامتی اظہار یہ ہے کہ سر سید احمد خان کو علامہ اقبال پر فوقیت دی جائے۔ ناممکن؟ شاید۔لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ آملیٹ بنانے کے لئے انڈا تو توڑنا ہی پڑتا ہے۔