لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں ڈیورنڈ لائن کے قریب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اور آپریشنل کمانڈر محمد خالد خراسانی کی تشدد زدہ بوری بند لاش برآمد ہوئی ہے۔
محمد خالد خراسانی کا اصل نام محمد خالد بلتی بتایا جاتا ہے اور انکا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع سکردو سے تھا۔ پیر کے روز ننگر ہار میں ان کی بوری بند لاش برآمد ہوئی۔ انکے جسم پر تشدد کے نشانات اور سر پرگولی لگنے کا نشان بھی بتایا جا رہا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے محمد خالد خراسانی کے قتل کا الزام پاکستانی سکیورٹی اداروں پر عائد کیا ہے، جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے ٹی ٹی پی کے اندرونی اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
’ایکسپریس ٹربیون‘ کے مطابق خالد خراسانی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سکردو سے حاصل کی اور 2007ء میں سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمد میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہوں نے جلد ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لئے اور افغانستان سے ہو کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکری کارروائیوں میں شریک رہے۔ بعد ازاں کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیئے۔
یاد رہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان میں خالد خراسانی نے ہی بطور ترجمان کالعدم ٹی ٹی پی جاری کیا تھا۔
صحافی اسد علی طور کے مطابق خالد خراسانی کو 2015ء میں افغان انٹیلی جنس ادارے نے گرفتار کر کے بگرام جیل منتقل کر دیا تھا۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد داعش کے ساتھ منسلک قیدیوں کو تو افغان طالبان نے رہا کر کے قتل کیا۔ تاہم خالد خراسانی سمیت کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
خالد خراسانی افغان جیل سے رہائی کے بعد ننگر ہار میں رہائش پذیر تھے اور وہاں بیس کیمپ بنا رکھا تھا۔ خالد خراسانی کے افغان طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے قیام کے بعدتواتر کے ساتھ کابل کے دورے کرتے اورطالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
ہفتہ اور اتوار کے روز سے خالد خراسانی لاپتہ تھے، جبکہ پیر کے روز ان کی تشدد زدہ بوری بند لاش ننگر ہار میں سرحدی علاقہ کے قریب سے برآمد ہوئی۔
اسد علی طور نے دعویٰ کیا کہ ننگر ہار صوبہ سے منسلک سرحد ’ڈیورنڈ لائن‘ سے پاکستان کی جانب سے لگائی گئی سرحدی باڑ اکھاڑنے کا اقدام افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کا پالیسی اقدام تھا۔ اس اقدام کا مقصد ٹی ٹی پی کی پاکستانی حدود میں کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں 45 فیصد اضافہ بھی اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ افغان طالبان کی کالعدم ٹی ٹی پی کو مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔
تاہم مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ننگر ہار میں سرحدی باڑ اکھاڑے جانے کا بنیادی مقصد سمگلنگ کے پرانے راستے کو بحال کرنا ہے۔ پوست کی فصل کا سیزن شروع ہو رہا ہے اور افیون، ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی سمگلنگ اورتجارت کیلئے یہ باڑ اکھاڑی گئی ہے۔ مقامی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ باڑ اکھاڑے جانے کے عمل کو پاکستانی ریاست کے کچھ حصوں کی جانب سے بھی تائید و حمایت حاصل ہے۔