اسلم ملک
21 اگست (گزشتہ روز) ممتاز شاعر، نقاد اور صحافی ظہیر کاشمیری کا 100 واں یو مِ ولادت تھا۔
وہ 21 اگست 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور 12 دسمبر 1994ء کو لاہورمیں وفات پائی۔ ظہیر کاشمیری کا اصل نام غلام دستگیر تھا۔ گھر میں ادبی ماحول تھا۔ ان کے تایا ظہیر الدین، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ظہیر کاشمیری نے ایم اے او کالج امرتسر سے تعلیم حاصل کی۔ ایم اے انگریزی سیاسی سرگرمیوں کے باعث مکمل نہ کرسکے۔ انگریزی میں کچھ کہانیاں اور مضامین بھی لکھے۔ کالج میگزین ”الہلال“ کے ایڈیٹر رہے۔ ایک ادبی تنظیم ”انجمن حریم اردو“ قائم کی، وہ خود اس کے صدر اور اسحٰق محمد سیکریٹری تھے(جو بعد میں میجر اسحٰق محمد کہلائے)۔
ظہیر کاشمیری کی کلیات ”عشق و انقلاب“ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے پہلے شعری مجموعے:عظمتِ آدم، تغزل، چراغِ آخرِ شب، رقصِ جنوں، آدمی نامہ اور جہان آگہی شائع ہوئے۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”ادب کے مادی نظرئیے“ بھی شائع ہوا۔ ظہیر کاشمیری نے فلمیں بھی لکھیں (چند اہم فلمیں: آس پاس، شیخ چلی، ہیر سیال، غیرت مند، خون، ناحق اورکافی ہاؤس)۔
بیڈن روڈ کے ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزاری۔ نسرین انجم بھٹی کہتی تھیں ”ایک جن نے ایک ماچس کی ڈبی میں عمر گزاردی“۔
ظہیر کاشمیری کئی بار جیل گئے۔ تیسرے مجموعے ”چراغ آخر شب“کا دیباچہ بھی کوٹ لکھپت جیل میں لکھا۔ وہ روزنامہ ”مساوات“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ پروفیسر سلیم الرحمٰن راوی ہیں کہ ان کے آخری بیماری کے دنوں میں حکومت کے ایک اہم نمائندے نے فون پر کہا کہ علاج معالجے کیلئے ایک معقول رقم بھجوانے کا انتظام کررہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ”اپنی امداد اپنے پاس رکھو، مجھے نہیں چاہیئے، جو لوگ دنیا کو کچھہ دینے کیلئے آتے ہیں وہ لیا نہیں کرتے“۔
ظہیر کاشمیری نے اپنے بیٹے قیصر ظہیر کو وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر ان کا’ہمارے بعد اجالا ہے‘ والا شعر، سرخ رنگ سے لکھوایا جائے۔ سومیانی صاحب میں ان کی قبر کے کتبے پر یہی شعر درج ہے(ذیل میں پیش خدمت ہے)۔
ان کی وفات پر منو بھائی نے لکھا تھا”ہم نے ان کی تمام دانشوری، علم و ادب اورمتنوع عالمانہ جہتیں اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی کے نیچے رکھ دیں“۔
نمونہ کلام
یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گْل کا لہو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اْجالا ہے
ہجومِ گْل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو!
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے
ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے
سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی
اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے
ظہیر ہم کو یہ عہدِ بہار، راس نہیں
ہر ایک پھول کے سینے پہ ایک چھالا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی شب تو بجھا رکھے ہیں یادوں کے چراغ
آج کی شب مری پلکوں پہ چراغاں کیوں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایہِ دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثال دست تہِ سنگ رہ گیا
ہم ان کی بزمِ ناز میں کیوں چپ ہوئے ظہیر
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
ہر آنسو میں آتش کی آمیزش ہے
دل میں شاید آگ کا دریا بہتا ہے
مجھ سے بچھڑ کے پہروں رویا کرتا تھا
وہ جو میرے حال پہ ہنستا رہتا ہے
دل کو شاید فصلِ بہاراں راس نہیں
باغ میں رہ کر پھول کے دکھ سہتاہے
میں نے اس کو اپنا مسیحا مان لیا
سارا زمانہ جس کو قاتل کہتا ہے
تارا تارا ہجر کے قصے پھیلے ہیں
آنسو آنسو دل کا ساگر بہتا ہے
ان ہونٹوں سے یوں رستی ہے بات ظہیر
جیسے اک نغموں کا جھرنا بہتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ محفلیں وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
اے شہر دل ترے در و دیوار کیا ہوئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم راہ لطف چشم گریزاں بھی آئے گی
وہ آئیں گے تو گردش دوراں بھی آئے گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا
میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چلو دن بھر کی بے مصرف تھکن ہی ساتھ لے جائیں
بوقتِ شام خالی ہاتھ گھر جانا نہیں اچھا