ڈاکٹر مظہر عباس
ممتاز سماجی اصلاح کار، سائنس دان، استاد، سیاست دان، عوامی دانشور اور نو آبادیاتی پنجاب کے سر کردہ ماہر ِتعلیم ہونے کے باوجود، رْوچی رام ساہنی کو ہندوستان اور پاکستان کے سماجی اور علمی حلقوں میں وہ مناسب مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ انھوں نے معروف طبیعات دان ارنسٹ ردرفورڈ اور نیلز بوہر کے ساتھ کام کیا تھا، تاہم، ان کی سائنسی اور تعلیمی میراث اکیسویں صدی کے آغاز تک بڑی حد تک فراموش کر دی گئی تھی۔
پنجابی یونیورسٹی، چندی گڑھ (انڈیا)، نے 2013ء میں ان کی 150 ویں سالگرہ منائی اور اس موقع پر ان کے مخطوطہ کی تمام دستیاب جلدوں کو ’History of My Own Times‘ کے نام کے تحت ڈیجیٹلائز کیا۔ علاوہ ازیں، اس پر وقار یادگاری تقریب کے دوران حکومت ہند نے ان کے نام کی پوسٹل سٹمپ جاری کر کے ان کی میراث کو اعزاز بخشا۔
ان کی پڑپوتی، نیرا بورا نے ان کی تحریروں کو اکٹھا کر کے ترتیب دیا اور انھیں 2017ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ایک کتاب’A Memoir of Pre-Partition Punjab: Ruchi Ram Sahni, 1863-1948‘ کے طور پر شائع کروایا۔ اس کتاب کا بیشتر حصہ ایک قیمتی دستاویز ’Self Revealitions of an Octogenarian‘ پر مشتمل ہے جسے ساہنی نے اصل میں اپنی سوانح عمری کے طور پر لکھا تھا۔ اگرچہ یہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے لیکن پنجاب کی بعض کتابوں، جیسا کہ ہرجوت اوبرائے کی کتاب ’The Construction of Religious Boundaries: Culture, Identity and Diversity in the Sikh Tradition (1994)‘ میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اگرچہ گنگا رام، جو کہ ”دی فادر آف لاہور“ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور بطور معمار لاہور میں کافی زیادہ عظیم عمارتیں تعمیر کرنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، کو ان کی گرانقدر خدمات کی وجہ سے تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ، ’دی سن آف لاہور‘ کو تقریباً سات دہائیوں تک نظر انداز کیا جاتا رہاہے۔ تاہم، فروری 2018ء میں ان کی پڑپوتی، نیرا بورا، نے ان کے بارے میں ان حقائق کا انکشاف بھی کر دیا جن کا ذکر ان کی اپنی کتاب میں بھی نہیں ملتا۔ 1947ء میں ساہنی نے لاہور سے ہجرت کرتے وقت اپنی تحریروں کو سٹیل کے ایک ٹرنک میں بند کر کے ’22 Rattigan Road‘ پر واقع اپنے گھر میں چھوڑ دیا تھا۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی فسادات اور امن کی بحالی کے بعد کسی دن اپنے گھر واپس آنے کی توقع رکھتے تھے۔ تاہم، وہ اپنے گھر واپس نہیں جا سکے اور اسی وجہ سے وہ اپنی تحریروں کے بارے میں فکر مند تھے۔ وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بتاتے تھے کہ ان کی تخلیقات ضائع ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ انھیں شائع نہیں کروا سکے تھے۔ ان کی تخلیقات کی اشاعت کی خواہش پوری کرنے کے بعد، بورا نے اظہار خیال کیا کہ’میری خواہش ہے کہ انہیں بتانے کا کوئی طریقہ ہوتا…ان کی تحریریں آج بھی اہل علم اور دیگر لوگوں کے درمیان بہت دلچسپی کا باعث ہیں …اور ان کو ایک نامور پبلشر شائع کر رہا ہے‘۔
روچی رام ساہنی 5 اپریل 1863ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے اور وہیں پرائمری اسکول میں داخلہ لیا۔ اپنے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ، انھوں نے اپنے والد کی، جو ایک تاجر تھے، ان کے کاروبار میں مدد کرنا شروع کر دی۔ اس سے انہیں گفت و شنید کی تکنیک سیکھنے میں مدد ملی۔ وہ غریبوں اور ناداروں میں غلہ بھی تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس سے وہ نچلے طبقے کے لوگوں سے براہِ راست رابطے میں آئے اور انھیں اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلے کے دوران ان کے سماجی حالات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ ساہنی خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان سرگرمیوں نے ان کی تربیت کی اور ان کی شخصیت کو سنوارنے میں اہم کردا ادا کیا۔
پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد ساہنی نے جھنگ کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا جہاں انھوں نے بابو کاشی ناتھ چٹرجی سے انگریزی اور ریاضی سیکھی، جن کا نہ صرف پڑھانے کا انداز متاثر کن تھا بلکہ شخصیت بھی نہایت متاثر کن تھی۔ وہاں انھوں نے اپنے دو کلاس فیلوز، گردِتہ مل اور بھائی رام سنگھ سے بھی دوستی کی، جنھوں نے بعد میں اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا۔ بابو کاشی ناتھ چٹرجی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ساہنی نے جھنگ چھوڑ دیا اور حویلی راجہ دھیان سنگھ لاہور کے گورنمنٹ ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔
انگریزی زبان سیکھنا اور اس زبان میں تعلیم حاصل کرنا 1870ء اور 1880ء کی دہائی کے پنجاب میں ایک نئی اور انوکھی چیز تھی جہاں پنجابی گریجویٹس کی تعداد بہت کم تھی۔ ساہنی پنجاب کے ابتدائی گریجویٹس میں سے ایک تھے۔ انھوں نے 1884ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاس کیا۔ انھوں نے اسی کالج سے فزکس اور کیمسٹری میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
گورنمنٹ کالج لاہور نے نہ صرف ان کے لیے تعلیمی مواقع کھولے بلکہ انھیں عوامی حلقوں کی سر کردہ شخصیات کے ساتھ روابط قائم کرنے کا ایک پلیٹ فارم بھی پیش کیا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر اومان سے بہت زیادہ متاثر تھے کیونکہ وہ تجربہ کار تھے اور انھوں نے کالج میں سائنس کے نئے شعبے بنائے تھے اور وہ ساہنی کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مزید برآں، کالج ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ، ان کی رسائی کالج کے ریڈنگ روم تک بھی تھی جہاں وہ سائنسی جریدہ ’Nature‘ پڑھا کرتے تھے۔
ساہنی نے اپنے سرکاری کیریئر کا آغاز کلکتہ میں ہندوستان کے محکمہ موسمیات سے کیا۔ کلکتہ میں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف براہمو سماج کی سرگرمیوں میں دلچسپی لی بلکہ انھیں پروفیسر جے سی بوس سمیت اعلیٰ ہندوستانی سائنسدانوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا۔ انھوں نے خلیج بنگال میں طوفان کی پیشین گوئی کی تھی اور خطے کی تمام بندرگاہوں کو بروقت وارننگ بھیج کر کئی جہازوں کو تباہی سے بچایا تھا۔
مارچ 1887ء کے آخر میں ان کی خدمات گورنمنٹ کالج لاہور میں سائنس (فزکس اور کیمسٹری) کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر محکمہ تعلیم پنجاب میں منتقل کر دی گئیں، جہاں سے وہ 5 اپریل 1918ء کو کیمسٹری کے سینئر پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد والی زندگی، جو کہ تقریباً 30 سال کو محیط ہے، تحریک خلافت میں مسلمانوں کی حمایت اور گردوارہ تحریک میں سکھوں کی حمایت کے لیے وقف کر دی۔ اس کے علاوہ وہ لاہور کی گورننگ کونسل کے رکن کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ وہ 1924ء سے لے کر 1926ء تک پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن رہے اور فرقہ واریت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ایک سیکولر، جان اسٹورٹ مل، کے پیروکار تھے۔ مزید برآں، انھوں نے کئی دہائیوں تک پنجاب کے معروف انگریزی اخبار ’دی ٹریبیون‘ کے لیے کام کیا۔
ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے ان کی دلچسپی سائنسی زراعت کے شعبے میں پیدا ہوئی اور پنجاب میں سائنس کو مقبول بنانے کے لیے انہوں نے 1887ء میں پنجاب سائنس انسٹیٹیوٹ اور پنجاب سائنسی ورکشاپ قائم کی جس نے بہترین اور جدید ترین سائنسی آلات تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ یورپی ساختہ سائنسی آلات کے ساتھ معیار میں مقابلہ کیا۔ ریڈیو ایکٹیویٹی کے موضوع کے بارے میں اپنے علم کو بڑھانے کی جستجو نے انھیں انگلینڈ اور پھر جرمنی جانے پر مجبور کیا جہاں انھوں نے معروف سائنسدانوں، بشمول ارنسٹ ردر فورڈ اور نیلز بوہر، کے ساتھ کام کیا۔
وہ عوام کے ذہنوں میں سائنسی نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لئے اس قدر جنون میں مبتلا تھے کہ انھوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں سائنس کے عجائبات کی نمائش اور مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے لیے دوروں کا اہتمام کیا۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے 500 سے زیادہ لیکچر دیئے۔
پنجاب میں کیمسٹری کو مقبول بنانے میں ان کی خدمات کا اعتراف انڈین کیمیکل سوسائٹی نے 1927ء میں کیا۔ دی ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ اس وقت سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ڈنکلف نے ساہنی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے کالج کے اندر اور باہر کیمسٹری کو مقبول بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔‘
انگریزوں نے ان کی باغیانہ طبیعت کے باوجود انہیں 1909ء کی لاہور نمائش میں خدمات کے صلے میں ’رائے صاحب‘ کا خطاب دیا۔
انگریزوں کو اپنا خطاب واپس کرتے ہوئے روچی رام ساہنی نے پنجاب کے چیف سیکرٹری کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو مطلع کرنے کی التجا کرتا ہوں کہ میں حالات کی وجہ سے اپنا لقب چھوڑنے پر مجبور ہوں اور میں آپ کو رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے اسناد کے ساتھ ساتھ تمغہ بھی بھیج رہا ہوں …پچھلے سال کے واقعات کے بعد سے میں نے ہمیشہ اپنے خطاب پر شرمندگی محسوس کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک خلافت کے قائدین نے مجھ سے اسے ایک نشانی کے طور پر ترک کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کی تحریک کے ساتھ میری ہمدردی نے بالآخر مجھے وہ قدم اٹھانے پر آمادہ کیا جو میں اب اٹھا رہا ہوں۔‘
اپنے عقلی، لبرل اور غیر روایتی مذہبی عقائد کی وجہ سے انھیں کئی موقعوں پر راسخ العقیدہ ہندوؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف تھے۔ اسی لیے انھوں نے ہندومت میں کٹڑ ذات پات کے نظام کی مخالفت کی اور مذہبی عقیدہ کی بنیاد پر نفرت اور دشمنی پر تنقید کی۔ مزید یہ کہ انھوں نے توہم پرستی کو رد کیا۔ ان کے عقلی اصولوں اور سائنسی مزاج اور قدیم ہندو روایات کی مخالفت کی وجہ سے ان کی اپنی بیوہ ماں نے ان کے گھر میں رہنے یا کھانے سے انکار کر دیا۔
روچی رام ساہنی نے نو آبادیاتی پنجاب میں سائنسی علم اور مذہبی اقدار کو نہ صرف ایک نئی سمت دی بلکہ اسے بھی عروج بخشا۔ وہ لاہور کے بالخصوص اور نو آبادیاتی پنجاب کے بالعموم ”بیٹے“ کے طور پر یاد کیے جانے کے مستحق ہیں۔