ڈاکٹر مظہر عباس
پاکستان میں پہلے دن سے ریاست کی تعمیر اور قومی تعمیر میں نظریہ مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ ملک کے بانی اور بابائےِ قوم محمد علی جناح (جنہیں قائد اعظم کے نام سے جانا جاتا ہے) کی اس تاریخی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، جو انھوں نے 11 اگست 1947ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی، کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک تھیوکریٹک (مذہبی) ریاست ہونا چاہیے جب کہ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔
نظریاتی رجحانات کا مقابلہ اور تضاد کئی باصلاحیت اور قابل لوگوں کو ریاست اور قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کا سبب بنا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک غیر مسلم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم یا صدر منتخب نہیں کیا جا سکتا چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو۔
جوگیندر ناتھ منڈل (عقیدہ کے لحاظ سے ایک ہندو) اور سر محمد ظفر اللہ خان (ایک احمدی، جنہیں بعد میں غیر مسلم قرار دیا گیا) قائداعظم کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ اسی لیے انھوں نے نئے بننے والے ملک کی پہلی کابینہ میں انھیں بالترتیب وزیر قانون اور وزیر خارجہ منتخب کیا۔
کئی تجزیہ کار اور مصنفین استدلال کرتے ہیں کہ یہ پیش رفتیں نوزائیدہ ریاست کی ترقی پسند نوعیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ باصلاحیت اور قابل افراد کو خواہ ان کا مذہب کوئی بھی ہو، جگہ، مواقع اور ذمہ داریاں دی جانی چاہییں۔ قائد اعظم کے انتقال کے نتیجے میں نہ صرف ان دونوں کو اپنی وزارتوں اور عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا بلکہ ان کو ملک بدر ہونے پربھی مجبور کیا گیا۔ اور یہ محض ان کے عقائد کے تنازعات کی وجہ سے ہوا۔
جوگیندر ناتھ منڈل کو، ایک دلت (نچلی ذات کے ہندو) خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود، 1946ء میں تقسیم ہند سے پہلے کے سیاسی سیٹ اپ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بطورِ وزیر نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ منڈل نہ صرف پاکستان کے پہلے وزیر قانون بنے بلکہ محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دینے کی قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا (حالانکہ دیگر تمام اقلیتی ارکان نے اس قرار داد کی مخالفت کی تھی)۔
اس کے علاوہ انھوں نے ضلع سلہٹ کے اچھوتوں پر زور دیا کہ وہ بھارت کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے رائے شماری میں اپناووٹ دیں۔ منڈل کو ایک طرف قراردادِ مقاصد کی حمایت کرنے اور دوسری طرف اچھوتوں کے لیے علیحدہ انتخابی حلقے کے لیے مہم چلانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اؤل الذّکر کے لئے ان کی تعریف کی گئی تھی۔ جبکہ مؤخر الذّکر کے لئے انہیں دفتر سے معزول کر دیا گیا تھا۔ وہ اس قدر مایوس ہو گئے تھے کہ 1950ء میں ملک چھوڑ کر ہندوستان لوٹ گئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگز کالج لندن سے فارغ التحصیل سر محمد ظفر اللہ خان، جو ایک ممتاز قانون دان اور سفارت کار تھے، کا انجام بھی کچھ اسی طرح ہوا۔ ان کے عقیدے سے متعلق تنازع نے ان کی قابلیت کو گرہن لگا دیا۔ خان پر پاکستان مخالف اور غدار کا لیبل لگا دیا گیا۔
وہ ان سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ظفر اللہ خان 1931-1932ء تک لیگ کے صدر رہے اور 1930ء اور 1932ء کے درمیان لندن میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں اس کی نمائندگی کی، جہاں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے مطالبات کی وکالت اور دفاع کرنے کی پوری کوشش کی۔ 1940ء کی مشہور قراردادِ لاہور (جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا) کا مسودہ تیار کرنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ ظفر اللہ خان نے پنجاب باؤنڈری کمیشن میں بھی مسلم لیگ کی نمائندگی کی۔
خان 1935ء میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بنے اور دو سال تک وزیرِ ریلوے کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1939ء میں لیگ آف نیشنز میں برطانوی ہندوستان کی نمائندگی بھی کی۔ وہ واحد ہندوستانی تھے جنھوں نے لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ دونوں میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ علاوہ ازیں، انھوں نے 1941ء سے 1947ء تک فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے انھیں پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ خان نے اقوامِ متحدہ میں پہلے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ انھوں نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے لیے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا اور اسرائیل کی بنیاد رکھنے کی مخالفت کی۔ 1949ء میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ظفر اللہ خان نے کشمیر کی ریاست کو غیر فوجی بنانے اور آزادانہ رائے شماری کرانے پر زور دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا، ”یہ رائے شماری کے منتظم کا فرض ہوگا کہ وہ ایسی شرائط قائم کرے جو اس بات کو یقینی بنائے اور اس بات کی ضمانت دے کہ استصوابِ رائے ہر لحاظ سے آزاد اور غیر جانبدارانہ ہے“۔
جناح کے سب سے قابلِ اعتماد سپاہیوں میں سے ایک ہونے اور پاکستانی ریاست کے لیے انمول خدمات پیش کرنے کے باوجود سر ظفر اللہ کو 1954ء میں استعفیٰ دینے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جلاوطنی کے دوران انھیں بین الاقوامی عدالت انصاف کے جج، نائب صدر اور صدر کے طور پر خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔
مزید یہ کہ وہ 1962-1963ء کے دوران اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی رہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد نوزائیدہ ملک کے کچھ چالاک بیوروکریٹس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ انھوں نے خاص طور پر ان غیر مسلم سیاستدانوں اور عہدیداروں کو نشانہ بنایا جو ممکنہ طور پر ان کے اختیار یا طاقت کو چیلنج کر سکتے تھے اور ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھا سکتے تھے۔
دائیں بازو کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر انھوں نے ایسے رہنماؤں کے عقیدے اور حب الوطنی پر سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ کیبنٹ سیکرٹریٹ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی (بعد میں فنانس سیکرٹری، وزیرِ خزانہ، اور وزیرِاعظم) نے وزیر قانون کو کابینہ کے کچھ دستاویزات دکھانا بند کر دیے اور یہ الزام لگایا کہ منڈل قابلِ بھروسہ اور محبِ وطن نہیں ہے۔
پاکستان جوگیندر ناتھ منڈل اور سر ظفر اللہ خان جیسے لوگوں کی قابلیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا اور یہ انتخاب ملک کو تب سے لے کر اب تک بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔