لاہور (جدوجہد رپورٹ) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بدھ کی صبح حملے کی صورت میں تمام دستیاب ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے جزوی طورپر ایٹمی ہتھیاروں کو متحرک کئے جانے کا حکم دیا ہے۔ پہلے سے ریکارڈ شدہ تقریر میں پوتن نے مغربی ممالک پر یوکرین کی فوج کو مسلح کرنیا ور کیف کو روس پرحملہ کرنے کی ترغیب دینے کا الزام بھی لگایا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت اور روس اور اپنے لوگوں کے دفاع کیلئے خطرے کی صورت میں ہم یقینی طور پر ہمارے لئے دستیاب تمام ہتھیاروں کے نظام کو استعمال کرینگے۔ یہ ایک بلف نہیں ہے اور جو لوگ ہمیں جوہری ہتھیاروں سے بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ موسم کی لہر ان کی طرف مڑ سکتی ہے۔‘
امریکہ اوریوکرین کے مغربی اتحادیوں نے کہا ہے کہ ماسکو کے تازہ ترین اقدامات، بشمول یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں منصوبہ بند الحاق ریفرنڈم، ظاہر کرتے ہیں کہ روس کی مہم ناکام ہو رہی ہے۔
تاہم جیسے جیسے تناؤ اور بیان بازی بڑھتی جا رہی ہے، دنیا پر جوہری جنگ کے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ’الجزیرہ‘ نے روس کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ نے اگرچہ اپنے ہزاروں ریٹائرڈ وارہیڈز کو ختم کر دیا ہے، لیکن اب بھی ان کے پاس دنیا کے کل جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد موجود ہے۔
1986ء میں اپنے عروج پر دونوں حریفوں کے پاس تقریباً 65000 جوہری وارہیڈز تھے، یہ وقت جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں سرد جنگ کا سب سے خطرناک دور قرار دیا جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ وہ واحد ملک ہے جس نے رضاکارانہ طو رپر جوہری ہتھیاروں کو ترک کر دیا تھا۔ 1989ء میں اس وقت کی حکومت نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روک دیا تھا اور 1990ء میں اپنے 6 جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنا شروع کر دیا تھا۔ دو سال بعد جنوبی افریقہ نے ایک غیر جوہری ملک کے طور پر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
روس کا جوہری پروگرام
روس کے پاس ایک اندازے کے مطابق 5977 جوہری وار ہیڈز ہیں۔ اس وقت تقریباً 1588 وار ہیڈز تعینات ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ بین البراعظمی میزائلوں اور بھارتی بمبار اڈوں پر موجود ہیں۔ ماسکو کے تقریباً نصف (2889) وار ہیڈز لانچرز پر نہیں بلکہ اسٹوریج میں تعینات ہیں۔ بقیہ 1500 وار ہیڈز ریٹائر ہو چکے ہیں اور انہیں ختم کیا جانا ہے۔
یو ایس ایس آر نے 29 اگست 1949ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔ 1949ء سے 1990ء کے درمیان سوویت یونین نے کل 715 ایٹمی تجربات کئے تھے۔
1961ء میں سوویت یونین نے آرکٹک سرکل کے شمال میں نووایازیملیہ کے اوپر زار بمباکو دھماکے سے اڑا کر دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی دھماکہ کیا۔ دھماکے کی پیداوار 50 میگاٹن تھی، جو ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے 3300 گنا زیادہ طاقتور تھی۔
جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ
1968ء میں قائم ہونے والے ’NPT‘ کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا اور جوہری توانائی کے پر امن استعمال کو فروغ دینا ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ دیگر دستخط کنندگان پر جوہری ہتھیاروں کے حصول پرپابندی لگاتا ہے، جس کے بدلے میں انہیں بجلی کی پیداوار کیلئے پر امن جوہری پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے، جس کی نگرانی اقوام متحدہ کر دی ہے۔
اس وقت 190 ممالک اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں، صرف بھارت، اسرائیل، پاکستان اور جنوبی سوڈان کبھی بھی اس میں فریق نہیں رہے۔ شمالی کوریا نے 1985ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے، تاہم 2003ء میں وہ اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا۔ تین سال بعد کم جونگ ان کی قیادت میں ملک نے اپنے پہلے جوہری ہتھیار کا دھماکہ کر لیا تھا۔
تصاویر: بشکریہ الجزیرہ