دنیا

شام میں تیل کے ذخائر اور امریکی سامراج کا نیا چہرہ!

قیصرعباس

امریکی صدر ڈو نلڈ ٹرمپ بھی ہمارے کپتان کی طرح یو ٹرن کے ماہر ہو تے جارہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا تھالیکن پھر اچانک اعلان ہوا کہ امریکی افواج شام سے واپس نہیں آرہی ہیں بلکہ وہ اب علاقے میں تیل کے کنوؤں کی حفاظت بھی کریں گی تاکہ ان پر ”داعش کا قبضہ نہ ہوسکے۔“ پھر ارشاد ہوا کہ امریکی فوجی ان کنوؤں پر قبضہ کررہی ہے۔

اس فیصلے کی توجیہات بھی تلاش کرلی گئیں اور ٹرمپ نے یہ بھی صاف صاف کہا کہ اس تیل پر ان کا حق ہے کیوں کہ شام میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ گویا شام پر قبضہ بھی امریکہ کرے اور اس کے اخراجات بھی شام ہی اداکرے؟

ٹرمپ کے مطابق امر یکی کمپنیوں سے کہا جائے گا کہ وہ ان شامی ذخائر سے تیل کی پروسیسنگ کوجدید ٹیکنالوجی کے ذریعے برآمد کے قابل بنائیں۔ یہ بھی کہاگیا کہ ان کے اتحادی کرد جنگجوؤں کے لئے بھی یہ تیل بہت اہم ہے اس لئے اس پر ان کا حق ہے۔ ان تمام توجیہات کو دیکھتے ہوئے عالمی رائے عامہ سوال کررہی ہے کی اس حکمت عملی کے پسِ پشت اصل امریکی مقاصد کیا ہیں؟

دوسری جانب صدر ڈو نلڈ ٹرمپ کی اس نئی حکمت عملی کو نہ صرف دنیا بلکہ امریکہ میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واشنگٹن ٹائمزنے 29 اکتوبر کی اشاعت میں شامل ایک تبصرے میں کہا ہے کہ”ان نئے احکامات نے شام میں امریکہ کے اس بنیادی مشن کو مزید پیچیدہ کردیاہے جس کا واحد مقصد ملک میں داعش کو شکست دینا تھا۔ اب امریکی فو ج نہ صرف تیل کے ذخیروں کی حفاظت کرے گی بلکہ انہیں روسی افواج اور بشارالاسد کے جنگجوؤں سے محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔“

اس گمبھیر صورت حال میں اگرچہ روس اور امریکہ میں براہ راست تصادم کے امکانات تو کم ہیں لیکن میدانِ جنگ میں جنگ کے خطرے کوکس طرح رد جاسکتا ہے؟ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ روس کے محکمہ دفاع کے ترجمان نے اس فیصلے کو ”بین الاقوامی قزاقی“ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ذخائر پرصرف شام کی حکومت کا حق ہے اور وہی اس کے مالک ہیں۔

امریکی میگزین نیویارکر کے ایک تجزیے کے مطابق ٹرمپ کا نیا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ میگزین کے مطابق عراق میں فرائض انجام دینے والے سابق امریکی جنرل بیری میکا فری نے تو یہاں تک کہا تھاکہ کیا ان اقدامات سے ہم عالمی قزاقوں کا کردار اداکرنا چاہتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ امریکی کانگریس نے شام میں مہم جوئی کی اجازت صر ف داعش اور دہشت پسندوں کے خلاف کاروائی کے لیے دی تھی جن کا اثر اب ختم ہوچکا ہے اور آ ج اس نئے منصوبے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجودنہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے قدرتی وسائل ہیں اور کتنے ہیں جن پر امریکی صدر کا دعویٰ ہے۔ گو شام میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن یہ مشرقِ وسطی کے دیگر ملکوں سے بہت کم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں تیل کے 2.5 بلین بیرل کے ذخائر موجودہیں اور شام پور ی دنیا میں تیل پیداکرنے والے ملکوں میں 75ویں نمبر پر ہے۔ ملک میں خانہ جنگی اور یورپی حکومتوں کے علاوہ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے بعدتیل کی برآمد تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ 2011ء سے پہلے شام میں تیل کی مختلف اقسام کی پیداوار 400,000 بیرل روزانہ تھی جو اب نہ ہونے کے برا برہے لیکن تیل کی یہی صنعت بشارالاسدکی حکومت کی آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ تھی۔

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ شام میں تیل کا معیار عالمی معیار سے کم ہے جس کو استعمال کے قابل بنانے کے لئے مہنگی ٹیکنالوجی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شام میں تیل کی صنعت کو پھرسے زندہ کرنے کے لئے، جو امریکہ ا ور روس کی بمباری اور خانہ جنگی سے تباہ ہوگئی ہے، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو امریکہ کے لئے ایک جوئے سے کم نہیں ہے۔ تو کیا ہم نفع نقصان کے ماہر صدر ٹرمپ کے ایک اور یوٹرن کے لئے تیار رہیں؟

اکثر مبصرین سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن میں آج کل دو قسم کی خارجہ پالیسیاں جاری ہیں۔ ریاستی خارجہ پالیسی‘ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ وضع کرتا ہے جس میں تاریخی پس منظر، امریکی رائے عامہ، زمینی صورتِ حال اور امریکی مفادات کو پنٹا گان اور دوسرے اداروں کے تعاون سے تشکیل دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس کی متوازی خارجہ پالیسی جسے صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر طے کرتے ہیں جو صدر کے ٹویٹ اور اعلانات کے ذریعے غیر متوقع طور پر افشاں کی جاتی ہے۔ ان دونوں پالیسیوں میں اکثر متضاد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات او ر انہیں ختم کرنے کا اعلان، اور پھر ان کا دو بارہ شروع ہونا، ایران میں فضائی حملے کا فیصلہ اور اس کی تنسیخ، ان ہی دو خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ شام میں روزانہ بدلتے ہوئے فیصلے بھی ان ہی دو متوازی خارجہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں!

اب جبکہ امریکی فوجیوں کی مدد سے کرد جنگجوؤں نے داعش کو شکست دے دی ہے، اوراس تشدد پسند گروہ کے سرغنہ ابوبکر البغدادی کو بھی ہلا ک کردیا گیاہے، شام میں امریکی قبضے کے مقاصد کیا ہیں؟ صدر ٹرمپ نے کئی پینترے بدلنے کے بعد آخر کار اپنے اصلی مقاصد بیان کردیے ہیں اور امریکی سامراج کا چہرہ اب کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ انہوں نیگزشتہ روز ہی اپنا موقف یہ کہ کر واضح کردیاکہ: ”میں نے کئی بار کہا ہے کہ یہ تیل جس کی قیمت5 ہزار ملین ڈالر ماہانہ ہے، ا ب ہمار ا ہے۔“

کیا دنیا کو اب بھی شک ہے کہ شام میں ٹرمپ کی نئی خارجہ پالیسی کے اصل مقاصد کیاہیں؟

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔