حارث قدیر
پاکستان کے صوبہ سندھ میں کچے کے علاقوں کے لوگ اشیائے صرف خریدتے ہوئے بالواسطہ ٹیکس تو ادا کرتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں تعلیم، علاج، روزگار اور انفراسٹرکچر تو درکنار جان و مال کے تحفظ کی سہولت میں میسر نہیں ہے۔ سیلاب سے ٹوٹے پھوٹے مکانات کے دروازوں پر کپڑے کے ساتھ قرآن باندھ رکھا ہے۔
یہ دیہاتیوں کیلئے چوروں اور ڈاکوؤں سے حفاظت کا واحد سہارا ہے۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں اور چوروں کا راج ہے۔ رات کے اوقات میں دیہاتوں پر پہرے داری کا صدیوں پرانا نظام آ ج بھی قائم ہے۔ مغرب کے بعد ان علاقوں میں وڈیرے اور زمیندار بھی جانے سے گھبراتے ہیں، دن کے اوقات میں بھی ان علاقوں میں جانے کیلئے زمینداروں کو مسلح گارڈ ہمراہ رکھنے پڑتے ہیں۔
مقامی زمیندار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ کچے کے علاقے ہیں، انہیں زیادہ تر نو گو ایریاز کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ڈاکوؤں کا راج ہے اور ان دور دراز علاقوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی رٹ موجود نہیں ہے۔ وہ یہاں آنا بھی گوارہ نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ دیہاتیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنے اناج اور مال مویشیوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔
کچے کے علاقوں میں داخل ہونے سے قبل پولیس کی چوکیاں تو نظر آتی ہیں، تاہم ان میں بیٹھے ہوئے پولیس اہلکاران کو صرف مقامی لوگ ہی پہچان سکتے ہیں۔ ان پولیس چوکیوں پر کوئی سائن بورڈ یا چوکی کا نام درج نہیں ہوتا، نہ ہی چوکی میں موجود دو یا تین پولیس اہلکاران وردی میں ہوتے ہیں۔ سول کپڑوں میں ملبوس ان پولیس اہلکاران کو دیکھ کر بھی ڈاکوؤں کا ہی گمان ہوتا ہے۔
شکار پور میں کچے کے علاقے کے ایک گوٹھ (دیہات) بانگو لبانو میں 100 سے زائد مکانات موجود ہیں۔ اکثریتی مکانات سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔ تباہ حال مکانات کے صدر دروازوں پر سرخ رنگ کے کپڑے میں لٹکائی گئی کسی شے کی بابت معلوم کرنے پر دیہاتیوں نے بتایا کہ یہ قرآن ہے، جسے ڈاکوؤں اور چوروں سے حفاظت کیلئے یہاں لٹکایا گیا ہے۔
ایک دیہاتی کا کہنا ہے کہ قرآن صدر دروازے پر لٹکانے کے باوجود رات بھر پہرہ بھی دینا پڑتا ہے۔ چور گروپوں کی شکل میں آتے ہیں، جانور، غلہ اور گھروں میں موجود ہر شے چوری کر کے لے جاتے ہیں۔
قرآن کس حد تک حفاظت کرتا ہے، اس سوال کے جواب میں ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ چوروں میں کوئی خدا خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکان میں داخل ہونے سے باقیوں کو روک دیتا ہے۔ تاہم یہ نسخہ زیادہ تر واقعات میں کارگر ثابت نہیں ہوتا۔
اس کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اور کوئی آسرا بھی نہیں ہے، جس کی چوری ہو جائے اسکی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس لئے یہی ایک امید ہوتی ہے کہ شاید کوئی چور خداخوفی کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچانے سے باز آ جائے۔‘
عاشق حسین نوجوان ہیں اور اس دیہات میں واحد ہیں جو پڑھے لکھے ہیں۔ وہ اردو اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتے ہیں اور اس دیہات کے رہائشیوں کے دکھوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے حکام بالا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عاشق حسین نے بی ایس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حال ہی میں مکمل کی ہے، اور بیروزگار ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’ان کے گاؤں سے ایک بھی شخص کبھی سرکاری ملازم نہیں رہا۔ سیلاب نے سب کچھ برباد کر دیا ہے لیکن یہاں کوئی مدد کیلئے نہیں پہنچا۔ این جی اوز بھی شہروں میں امدادی سامان لاتی ہیں، ہم نے بہت لوگوں سے اپیل کی، لیکن کوئی بھی اس طرف آنے کو تیار نہیں ہے۔‘
ڈاکوؤں سے متعلق انکا کہنا تھا کہ ’چوریاں تو یہاں معمول کی بات ہے، یہ بھی ہم سنتے آئے ہیں کہ کچے کے علاقے سے ڈاکو رات کے اوقات میں نکلتے ہیں اور پکی سڑکوں پر لوٹ مار کر کے واپس اپنے علاقوں میں چلے آتے ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ کچے کے علاقے میں جو بھی باہر سے آتا ہے، اسے اغوا کر لیا جاتا ہے، لیکن ایسا ہوتے میں نے کبھی دیکھا نہیں ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ریاست کو یہاں سہولیات دینی چاہئیں، سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ تعلیم اور علاج کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں، تاکہ اس علاقے اور اس جیسے کئی دیگر دیہاتوں کے لوگ بھی کم از کم انسانی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں ریاست کی موجودگی کی ایک علامت بجلی ہوا کرتی تھی، جو گزشتہ 15 سال سے کٹ گئی تھی، اب ریاست کی موجودگی دہائیوں پرانے ٹوٹے پھوٹے بجلی کے کھمبوں کی صورت میں ہی نظر آتی ہے، جن میں کبھی بجلی آیا کرتی تھی۔‘