لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران میں سکول کی طالبان نے ملک بھر میں مظاہروں کی حمایت میں اپنے سروں سے اسکارف اتار کر ہوا میں لہراتے ہوئے ملائیت اور آمریت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے ہیں۔
’بی بی سی‘ کے مطابق طالبات کے یہ مظاہرے سکول کے صحن کے اندر اور کئی شہروں کی سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں۔
کاراج میں مبینہ طور پر طالبات نے ایک تعلیمی اہلکار کو اپنے سکول سے زبردستی نکال دیا۔
پیر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ’شیم آن یو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اور اس شخص پر پانی کی خالی بوتلیں اس وقت تک پھینکتی ہیں، جب تک وہ گیٹ سے پیچھے نہیں ہٹ جاتا۔
ایک اور ویڈیو میں دارالحکومت تہران کے مغرب میں طالبات کو چیختے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’اگر ہم متحد نہیں ہوئے تو وہ ہمیں ایک ایک کر کے مار دیں گے۔‘
جنوبی شہر شیراز میں درجنوں سکول کی طالبات نے ایک مرکزی سڑک پر ٹریفک کو بند کر دیا، وہ اپنے سروں سے اسکارف اتار کر ہوا میں لہراتے ہوئے ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔
منگل کے روز کرج، تہران اور شمال مغربی شہروں ساقیز اور سنندج میں سکول طالبات کے مزید مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔
کئی طالبات نے اپنے کلاس رومز میں سر سے اسکارف اتار کر کھلے سر کے ساتھ تصویریں بنائیں، کچھ تصویروں میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے تصویروں کی طرف نفرت انگیز اشارے کرتے ہوئے طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ احتجاجی تحریک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی زیر حراست موت کے بعد شروع ہوئی۔ مہسا امینی کو 13 ستمبر کو اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر حجاب قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا تھا، دوران حراست انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، تاہم وہ تین دن بعد دم توڑ گئیں۔
مہسا کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا کہ افسران نے اس کے سر پر ڈنڈے مارے اور اس کا سر ان کی ایک گاڑی سے بھی ٹکرایا۔ مہسا کے حراستی قتل کے خلاف پہلا احتجاج کرد آبادی والے شمال مغربی ایران میں ہوا، جو مہسا کا آبائی علاقہ تھا۔ تاہم دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج کی لہر پورے ملک میں تیزی سے پھیل گئی۔