خبریں/تبصرے

زن زندگی آزادی: عورت انقلاب چوتھے ہفتے میں داخل

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی زیر حراست ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ ہفتے کے روز ایک مرتبہ پھر سکول کی طالبات نے احتجا ج کیا، مزدوروں نے ہڑتال کی اور پورے ایران میں سڑکوں پر جھڑپیں جاری رہیں۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق ایرانی حکومت نے جمعہ کے روز کہا کہ ایک تحقیقات سے پتہ چلا کہ مہسا امینی کی موت سر پر ’خرابی‘ کی بجائے ایک طویل بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے، اس کے باوجود کہ ان کے خاندان نے مبینہ طورپر کہا کہ وہ پہلے صحت مند تھیں۔

ہفتے کے روز نئے تعلیمی سال کے موقع پر تہران کی الزہرا یونیورسٹی میں صدر ابراہیم رئیسی کی موجودگی میں بھی احتجاج جاری رہا۔ حکومت مظاہروں کو امریکہ سمیت ایران کے دشمنوں کی سازش قرار دے رہی ہے، مسلح مخالفین پر تشدد کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے، جس میں سکیورٹی فورسز کے کم از کم 20 ارکان کی ہلاکت کی بھی اطلاع دی گئی ہے۔

مغربی صوبہ کردستان میں مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں سکول کی طالبان نے عورت زندگی اور آزادی کے نعرے لگا کر احتجاج کیا۔ ایک ویڈیو میں انہیں دوپٹے لہراتے ہوئے سڑک پر مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک اور ویڈیو میں لڑکیوں کے ایک اور گروپ کو عورت، زندگی اور آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، یہ احتجاج صوبہ کردستان کے صدر مقام سنندج کے ایک سکول میں ہوا۔

سنندج کی ہی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو گولی لگ کر ہلاک ہوتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ویڈیو میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز نے لائیو راؤنڈز کا استعمال نہیں کیا، ہلاکت انقلابیوں کی فائرنگ سے ہوئی۔ تاہم سرکاری خبر رساں ادارے کے اس دعوے کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو پائی۔

تہران کے 10 سے زائد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، تاجروں نے اپنی دکانیں بند رکھیں، تاہم سرکاری نیوز ایجنسی نے اس بابت بھی دعویٰ کیا کہ مظاہرے بہت محدود تھے اور تاجروں نے بدامنی سے ہونے والے نقصان کے خوف سے دکانیں بند رکھیں۔

اجتماعات کو روکنے اور کریک ڈاؤن کی تصاویر کو باہر نکلنے سے روکنے کیلئے انٹرنیٹ پر پابندیوں کے باوجود مظاہرین اپنا پیغام پہنچانے کے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔

وسطی تہران کی ایک ہائی وے کے اوور پاس پر ایک بڑا بینر آویزاں کیا گیا ہے، جس پر لکھا ہے کہ ’ہم اب ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم لڑیں گے۔‘

انسانی حقوق گروپوں کے مطابق کردستان صوبے کے علاقے ساقیز، دارالحکومت سنندج اور دیواندارریہ کے علاوہ مغربی آذر بائیجان صوبے کے مہاباد میں بھی بڑے پیمانے پر ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔

جنوبی شہر شیراز میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے، جبکہ اصفہان اور تبریز میں بھی طلبہ نے احتجاجاً کلاسیں چھوڑ دیں۔ مظاہروں کے دوران درجنوں افراد کی ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایران نے بارہا بیرونی قوتوں پر مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا اور گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ اور ہالینڈ سمیت 9 غیر ملکی شہریوں کو گرفتارکیا گیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts