طارق علی
ڈومباس میں روسی فوجی دستوں کی موجودگی جبکہ یوکرین پر روس کے بحری و فضائی حملوں کے بعد یوکرین کا بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ انجام کیا ہو گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پوتن ایک ’ڈی ملٹرائزڈ اور نازیوں سے پاک‘یوکرینی ریاست کا قیام چاہتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر روس ایک ایسی کٹھ پتلی ریاست چاہتا ہے جیسی کہ مشرقی یورپ اور بالٹک میں ناٹو کو دستیاب ہیں۔ مطلب جیسا مغرب کرے گا ویسا ہم کریں گے۔ ناٹو میں توسیع کے جواب میں یہ روس کا جوابی رد عمل ہے۔
اسے ایک المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رد عمل غلط ہے مگر ’جانبدارانہ‘ نہیں۔
مغرب نے منسک معاہدے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ فی الحال امریکہ (ناٹو) نے روس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی ہیں گو انہیں معلوم ہے کہ ان کا کافی نقصان اٹلی اور جرمنی کو ہو گا۔ بہرحال ان پابندیوں کے فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اصل فیصلے امریکہ کرتا ہے۔ ناٹو کے یورپی ارکان کی رائے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ فرانس ہو یا جرمنی۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو وہ عرصہ ہوا امریکہ کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کئے بیٹھا ہے۔ فیصلہ ہمیشہ وائٹ ہاوس کا ہی مانا جاتا ہے۔
دو روزقبل اوڈیسا میں امن مارچ ہوا۔ بلاگرز یا یوکرینی دوستوں سے ملنے والی اطاعات کے مطابق بہت کم لوگ (بشمول یوکرین کے روسی باشندوں کے) جنگ کے حامی ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ روسیوں کی ایک بڑی اکثریت بھی جنگ نہیں چاہتی۔
گذشتہ شام کی گئی فیس بک پوسٹ کا ترجمہ۔