لاہور (جدوجہد رپورٹ) صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے چار باغ علاقے میں پیر کو موٹر سائیکل سوار نامعلوم مسلح افراد نے اسکول وین پر فائرنگ کر دی، جس کی وجہ سے ڈرائیور ہلاک اور ایک کمسن طالبعلم زخمی ہو گیا۔
یہ واقعہ سکول کے باہر پیش آیا، حملے کے وقت گاڑی میں 15 طلبہ موجود تھے۔
’ڈان‘ کے مطابق واقعہ کے خلاف ورثا نے ڈرائیور کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، جبکہ سوات کے نجی سکولوں کے سیکڑوں طلبہ اور اساتذہ بھی واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے۔
مینگورہ کے نشاط چوک پر جمع ہونے والے مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر امن کے پیغامات درج تھے۔ انہوں نے سوات ار مالاکنڈ ڈویژن میں امن کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بھی لگائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات میں گزشتہ تین ماہ سے امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ ڈرامے کے پیچھے کون ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز چند نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف کیوں بے بس ہیں۔
مظاہرین میں شامل ایک ظفر شلامی نے کہا کہ دہشت گرد کتابوں، طلبہ اور اساتذہ کے دشمن ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اساتذہ اور طلبہ سمیت سوات کے رہائشی کبھی بھی محکوم یا خوفزدہ نہیں ہونگے۔
مظاہرین میں شامل احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اگر ریاست ناکام ہوئی تو ہم امن کیلئے جنگ لڑیں گے۔
سوات کے تمام اساتذہ نے بھی ایک مہم شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جس کا مقصد طلبہ میں سکیورٹی فورسز کی نا انصافی اور ناکامی کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوات کے تمام اساتذہ اور طلبہ اب سول سوسائٹی کے اراکین کی طرف سے بلائے گئے ہر احتجاج کا حصہ بنیں گے۔
دریں اثنا، سوات کی پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نے حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کیلئے منگل کو ضلع بھر میں سکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اس واقعے پر رد عمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ حملہ ریاست کے جاگنے کی کال کے طور پر کام کرنا چاہیے جو ایک بار پھر سوات میں اپنی رٹ کھوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سوات کے لوگ دہشت گردی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن ان کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پشتونوں کو ایک بار پھر بھڑیوں کی طرف پھینکا جا رہا ہے۔‘
محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں اپنی گفتگو کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ ’ٹی ٹی پی نے پورے خبرپختونخوا میں شیڈو گورنرز کا اعلان کر دیا ہے۔ ہر علاقے کا طالبان نے نمائندہ گورنر مقرر کر دیا ہے۔ آج سوات میں سکول کے بچوں پر حملہ کیا گیا، جس میں متعدد بچے زخمی ہوئے ہیں۔ دیر میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ آج خیبر پختونخوا ہے، کل پورا پاکستان ہو گا۔ جب صورتحال یہاں تک پہنچ جائے کہ بچے بھی محفوظ نہ ہوں تو ہمیں سب کچھ چھوڑ کر دہشت گردی کے تدارک کا سوچنا ہو گا۔‘
واضح رہے کہ سوات میں جمعہ کے روز شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وادی میں امن دشمن عناصڑ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر حکام اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے تو وہ دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔
’ڈیلی ٹائمز‘ کے مطابق مظاہرین سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں مٹہ چوک پر جمع ہوئے تھے۔ اگست کے مہینے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد سے مقامی شہریوں کا یہ چھٹا احتجاج تھا۔ اس احتجاج کا اعلان سوات اولسی پسون اور سوات قومی جرگہ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ ان احتجاجی مظاہروں میں سیکڑوں نوجوانوں اور بزرگوں سمیت حکمران تحریک انصاف سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ تین ماہ سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ مختلف واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ چند روز پہلے پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کو بھی کوہستان کے قریب دہشت گردوں کی طرف سے اغوا کئے جانے کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں بتایا جاتا کہ کن شرائط پر عملدرآمد کے بعد سینئر وزیر کو واپس رہا کیا گیا۔