لاہور (جدوجہد رپورٹ) برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے ایک گروپ نے اطلاع دی ہے کہ سعودی عرب نے 500 ارب ڈالر کے ’نیوم میگا سٹی‘ کی تعمیر کیلئے راستہ بنانے کیلئے زبردستی بے دخل کئے جانے والے قبیلے ’حویتات‘ کے تین افراد کو رواں ماہ کے آغاز میں بے گھر ہونے کے خلاف مزاحمت کرنے پر موت کی سزا سنائی ہے۔
’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مطابق شادلی، عطا اللہ اور ابراہیم الحویتی کو 2020ء میں اس منصوبے کیلئے اپنے قبیلے کی بے دخلی کی مخالفت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 2 اکتوبر کو سعودی عرب کی خصوصی فوجداری عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔
شادلی الحویتی تبوک کے ایک 43 سالہ رہائشی عبدالرحیم الحویتی کے بھائی ہیں، جنہیں اپریل 2020ء میں سعودی سپیشل فورسز نے حکومت کے بے دخلی کے احکامات کے خلاف احتجاج کرنے پرگولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سعودی عدالتوں کی طرف سے حالیہ فیصلے انتہائی سخت فیصلوں میں سے تازہ ترین ہیں، جن میں اختلاف رائے کے اظہار پر مردوں کو سزائیں سنائی گئیں۔
سعودی حکومت نے حویتات قبائلیوں کو اپنی زمینوں سے فلیگ شپ پروجیکٹ کیلئے نکالنے کی مہم میں اضافے کیا ہے۔ 2029ء کے ایشیائی سرمائی کھیلوں کا انعقاد بھی اسی جگہ پر کرنے کا گزشتہ ہفتہ اعلان کیا گیا ہے۔
حویتات کے دو دیگر ارکان عبداللہ الحویتی اور عبداللہ دخیل الحویتی کو اگست میں 50 سال قید کی سزا اور 50 سال کی سفری پابندیوں کی سزا سنائی گئی۔ ان پر الزام تھا کہ ان کے خاندان کی جانب مملکت کے صوبہ تبوک میں ان کے گھروں سے بے دخل ہونے سے انکار کی حمایت کی تھی۔
جن دیگر افراد کو لمبی سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں سلمیٰ الشہاب، جو لیڈز یونیورسٹی کی طالبہ اور دو بچوں کی ماں ہیں اور نورہ بنت سعید القحطانی، جو پانچ بچوں کی ماں ہیں، سعودی حکومت پر تنقید کرنے والے ٹویٹس پر انہیں بالترتیب 34 سال اور 45 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
انسانی حقوق گروپ نے کہا کہ اسامہ خالد، جو ایک مصنف، مترجم اور کمپیوٹر پروگرامر ہیں، کو تقریر کی آزادی کے حق سے متعلق الزامات پر 32 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے نائب صدر عادل السعید نے ٹویٹس کی ایک سیریز میں کہا کہ نئی سزائے موت سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح حکومتی فیصلوں پر ہر قسم کے اعتراضات کرنے والوں کے خلاف سزا کا استعمال بے مثال طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو محکوم بنانے کیلئے سزائے موت کا سیاسی آلہ کے طور پر استعمال ظاہر کرتا ہے کہ مملکت سزائے موت کے استعمال کو واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بین الاقوامی صورتحال اور توانائی کی ضرورت کو ایک مناسب ماحول کے طو رپر دیکھتے ہیں تاکہ کم سے کم قیمت پر اپنے غیر منصفانہ اقدامات کر سکیں۔