حارث قدیر
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعظم تنویر الیاس کے ملکیتی شاپنگ و رہائشی مال ’سینٹورس‘ میں آتشزدگی کے واقعہ کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کے خلاف تنویر الیاس اور ان کے وزرا تحریک انصاف حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ صحافی اورقوم پرست کہلانے والے سیاسی کارکنان کے ذریعے بھی اس اقدام کو کشمیریوں کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیکر نہ صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کیا جا رہا ہے، بلکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کی بھی کال دی گئی تھی۔ اس تمام سرگرمی کا مقصد اسلام آباد انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر تحقیقات پر اثر انداز ہونے سے زیادہ کچھ بھی نہیں لگ رہا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں، جنہیں آگے چل کر زیر بحث لایا جائے گا۔
سینٹورس مال میں آتشزدگی کا واقعہ اتوار کی شام 4 بجے کے قریب پیش آیا تھا، چند ہی منٹوں میں آگ نے شاپنگ مال کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آگ فوڈ کورٹ میں لگی تھی اور تیزی سے تمام سمتوں میں پھیل گئی۔ فائر انجنوں اور ہیلی کاپٹر کی مدد سے دو گھنٹے کی ریسکیو سرگرمی کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسلام آباد انتظامیہ نے سینٹورس مال میں آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات کیلئے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، آگ لگانے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے تک مال کو سیل کر کے کارڈن آف کر دیا گیا تھا۔
تحقیقاتی کمیٹی آگ لگنی کی وجہ، ممکنہ خطرات اور ان عوامل کا پتہ لگائے گی، جو آگ کے فوری پھیلنے کا باعث بنے۔ اس کے علاوہ کمیٹی اس بات کا بھی تعین کرے گی کہ آیا عمارت کے اندر فائر سیفٹی کے آلات اور فائر سیفٹی الارم سسٹم کام کر رہے تھے یا نہیں۔ کمیٹی تین ایام کے اندر رپورٹ پیش کرے گی اور اس رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ کمیٹی عمارت کے محفوظ ہونے کی نسبت بھی رپورٹ پیش کرے گی، اس کے بعد ہی مال کو دوبارہ تجارتی اور رہائشی سرگرمیوں کیلئے کھولے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
تاہم اسلام آباد انتظامیہ کے اس فیصلے کو وزیر اعظم تنویر الیاس اور سینٹورس مال انتظامیہ نے تسلیم نہیں کیا اور وزیر اعظم نے اسے تحریک انصاف کی ان کی سربراہی میں قائم حکومت کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا، دیگر نے اسے کشمیریوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کے روز جب تحقیقاتی کمیٹی نے جائے حادثہ کا جائزہ لینے کیلئے مال کا دورہ کیا تو وزیر اعظم تنویر الیاس کے بھائی اپنے محافظوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے ریسکیو آپریشن پر عدم اطمینان کااظہار کیا، انتظامی افسران کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی، ان کے ہمراہ آئے ایک شخص کو اسسٹنٹ کمشنر کا کالر پکڑنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک محافظ کو اتوار کے روز گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا گیا تھا، محافظ پر امدادی کام میں رکاوٹ بننے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے؟
ابھی تک کی معلومات کو سامنے رکھا جائے تو احتجاج کی بنیادی وجہ تحقیقات سے بچنے کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہو رہی ہے۔ ’ڈان‘ کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے انہیں بتایا کہ ’مال میں نصب فائر پروٹیکشن/کنٹرول سسٹم منقطع پایا گیا ہے، جس نے الارم اور پانی کے چھڑکاؤ کے نظام کو غیر فعال کر دیا تھا۔‘
’ڈان‘ ہی کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلام آباد کی زیادہ تر بلند و بالا عمارتیں (بشمول سینٹورس) تکمیل کے سرٹیفکیٹ اور فائر اینڈ سیفٹی کے سرٹیفائیڈ نظام کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
تکمیلی سرٹیفکیٹ کو قبضے کے سرٹیفکیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ایسی دستاویزات آگ اور حفاظتی نظام، سٹرکچرل مضبوطی وغیرہ سے متعلق ہیں۔ تاہم ان عمارتوں کے مالکان نے ان تمام سرٹیفکیٹس کے حصول کے بغیر عمارتوں میں کاروبار شروع کر کے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ ترقیاتی اداروں نے بھی محض نوٹس جاری کرنے سے آگے کوئی ایکشن نہیں لیا، جس کی وجہ سے کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔
ایمرجنسی اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے اسلام آباد کی عمارتوں کا آڈٹ کیا ہے اور اب تک صرف 26 عمارتوں کو این او سی جاری کئے گئے ہیں۔ ان میں سینٹورس شامل نہیں ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد میں اتنی اونچی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے، انہیں یہ معلوم نہیں کہ کس طرح اتنی اونچی عمارت کی اجازت دی گئی۔
یوں اسلام آباد کے ترقیاتی اداروں اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کی ان بلند و بالا عمارتوں میں کام کرنے والے اور آنے جانے والے انسانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اسی طرح ان بلند و بالا عمارتوں کے مالکان قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو کر سرمائے کے بل بوتے پر قانونی کارروائیوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی حادثہ پیش نہیں آتا انتظامیہ اور ادارے بھی کوئی توجہ نہیں دیتے۔ حادثہ کی صورت انکوائری ہوتی ہے تو سرمایہ کاری کے نام پر بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سارے تماشے میں ان عمارتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات، ان کی کم اجرتوں سمیت لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے جیسے عوامل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سینٹورس حادثے کی تحقیقات اور جموں کشمیر کے محنت کش
سینٹورس مال انتظامیہ کیخلاف تحقیقات کو وزیراعظم نے سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ ان کے بھائی اور سینٹورس انتظامیہ نے کشمیریوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ اسی طرح مقامی اسمبلی کے وزرا، ممبران اور قوم پرستوں کے کچھ حلقے بھی اس عمل کو کشمیریوں کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ کہا جارہا ہے کہ سینٹورس مال کشمیریوں کی شناخت کی علامت ہے۔ اسی وجہ سے حکومت پاکستان اس کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے، قومی شاؤنزم اور شناخت کے بحران کو استعمال کر کے تحقیقات سے بچنے اور راہ فرار کا ہی ایک حصہ ہے۔
سینٹورس مال اور تنویر الیاس کا سرمایہ کشمیریوں کی شناخت یا پہچان نہیں ہے بلکہ جموں کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں کے محنت کشوں کی محنت کی لوٹ کی علامت ہے۔
قومی شاؤنزم اور قوم پرستی کو ہمیشہ مقامی حکمران اشرافیہ کے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس عمل میں عام غریب محنت کشوں کو حکمران اشرافیہ کے مقاصد کے تکمیل کیلئے ایندھن بنایا جاتا ہے۔
سرمایہ آسمان سے نہیں اترتا، سرمائے کے ارتکاز کیلئے دوسرے انسانوں کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ تنویر الیاس خاندان کی طرح دولت کے تیز ترین ارتکاز کے پیچھے دھوکے، جعلی سرمایہ دارانہ قواعد اور محنت کی طلب اور رسد میں خلیج کی بنیاد پر روزگار کے حصول کی مقابلہ بازی سمیت متعدد دیگر عوامل کی بنیاد پر اپنی قدر سے بھی کئی گناکم قیمت پر محنت خرید کر اسے دوسری دنیا کے کم از کم اجرت کے قوانین کے مطابق فروخت کرنے جیسی دلالت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جعل سازی، سٹے بازی، پراپرٹی کا جوا وغیرہ بھی ان اپ سٹارٹ سرمایہ داروں کی دولت میں تیز ترین اور بیش بہا اضافے کا باعث بنتا ہے۔
تاہم اس غیر قانونی اور لوٹ سے حاصل ہونے والی دولت کو بچانے کیلئے محنت کشوں کو ہی قومی شاؤنزم ابھار کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ جن کی محنت کی لوٹ سے جمع کی گئی دولت سے تعمیر کئے گئے سینٹورس مال کے ناقص انتظامات حادثے کا باعث بنے، اس حادثے میں زندگیاں بھی انہی کی داؤ پر لگی تھیں۔ اسی مال میں سیکڑوں محنت کشو ں کو پاکستان میں رائج کم از کم تنخواہ کی ادائیگی بھی نہیں کی جاتی اور لیبر قوانین پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جاتا۔ تاہم اب قانونی کارروائی سے بچنے کیلئے انہی محنت کشوں کے قومی جذبات کو ابھارنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔
جموں کشمیر پراپرٹی کی فروخت پر خاموش حکمران اشرافیہ
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے حکومتی وزرا سینٹورس کو کشمیریوں کی شناخت اور پراپرٹی قرار دے کر سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ حکومت پاکستان کو انتقامی کارروائی کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔ بڑی ڈھٹائی سے قومی شاؤنزم کو ابھارا جا رہا ہے۔
تاہم ریاست جموں کشمیر کی پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موجود اربوں روپے کی پراپرٹی کے حکومت پاکستان کے زیر انتظام ہونے، اس کو غیر قانونی طریقے سے فروخت کئے جانے اور جموں کشمیر کے شہریوں کو اس پراپرٹی کی ملکیت اور رینٹ سے محروم رکھے جانے پر آج تک کسی حکومتی نمائندے نے قومی شاؤنزم کو ابھارنے یا احتجاج کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
جموں کشمیر پراپرٹی میں 1048 کنال شہری پراپرٹی تھی، جس میں سے 468 کنال غیر قانونی طریقے سے فروخت کئے جانے کی اطلاعات ہیں، اس کے علاوہ دیگر پراپرٹی پر بھی قبضے کئے جا چکے ہیں۔ کل زرعی اراضی تقریباً 2426 ایکڑ تھی، جس میں سے 462 ایکڑ فروخت کی جا چکی ہے۔ صحافی اطہر مسعود وانی کے مطابق کل 35 جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں وزارت امور کشمیر کے خطوط پر فروخت کر دی گئیں اور ان کی رقوم کے بارے میں بھی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔
یہ پراپرٹی حقیقی معنوں میں جموں کشمیر کے لوگوں کی پراپرٹی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سرمائے پر جموں کشمیر کے شہریوں کا حق ہے۔ اس حق سے انہیں گزشتہ تقریباً 67 سال ہو چکے محروم کر دیا گیا تھا۔ تاہم ابھی تک کسی مقامی حکمران نے اس معاملے پر کوئی احتجاج نہیں کیا، نہ ہی یہ معلومات جموں کشمیر کے لوگوں تک پہنچا سکے۔ اسی طرح ’تحریک آزادی‘ چلانے کے نام پر قائم ہونے والے اخبارات کے مالکان صحافیوں نے کبھی اس ریاستی جائیداد کی بابت نہ تو کوئی معلومات عوام تک نہیں پہنچائی، نہ ہی کسی احتجاج کی کال دی۔ اب مگر تنویر الیاس کی جائیداد پر ہونے والے غیر قانونی اقدامات پر انہیں کارروائی سے بچانے کیلئے یہ احباب پوری دلجمعی سے متحرک نظر آرہے ہیں۔
پس نوشت یہ کہ حکمران اشرافیہ ہمیشہ اپنے مقاصد کیلئے مذہب، رنگ، نسل، زبان، قومیت اور شناخت کو استعمال کرتے، لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول کرتے ہوئے محنت کشوں کا استحصال جاری رکھتے ہیں۔ درحقیقت حکمرانوں کیلئے مذہب، ذات، نسل، رنگ، قومیت اور شناخت انکا سرمایہ، اسکا تحفظ اور اس میں بڑھوتری ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران تعصبات کے ذریعے محنت کشوں کی ایکتا کو توڑنے اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے خودساختہ قانونی اور سیاسی حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
تاہم محنت کشوں کی بقا حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ محنت کش جب طبقاتی ادراک سے سرشار ہوتے ہیں تو وہ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی لوٹی ہوئی دولت، طاقت اور ذرائع پیداوار پر نہ صرف قبضہ کرتے ہیں بلکہ اپنے تصرف میں لاتے ہوئے نسل انسانی کی تعمیر کے تاریخی فریضے کی جانب بڑھتے ہیں۔
تاریخ ہمیشہ سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتی، اتار چڑھاؤ اور انقلابات انسانی تاریخ کے ارتقا کے لازمی جزو ہوتے ہیں۔ انقلابات سرحدیں، معاشرے اور زمانے تبدیل کر دیا کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے یہ حربے زیادہ دیر تک کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔