لاہور (جدوجہد رپورٹ) کئی سالوں سے خوراک پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنی اشیا کی مقدار کو مسلسل کم کر رہی ہیں، تاہم ان کی قیمتیں کم نہیں ہو رہی ہیں، الٹا بعض اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
بائیں بازو کے جریدے’جیکوبن‘ کی ایک رپورٹ میں امریکہ میں چپس، جیم، آئس کریم، چاکلیٹ، مکھن، چیز وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے کچھ سالوں سے مسلسل اپنی مصنوعات کی پیکنگ میں اس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں کہ انکا بظاہر حجم برقرار رکھ کر ان میں پیک ہونے والی مصنوعات کی مقدار کو کم کر دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چپس کے بیگ میں ہوا کا بھرنا ہو، جیم یا مکھن کے جار کے نچلے حصے میں ایک ڈمپل کااضافہ کرنا ہو، یا پھر چاکلیٹ کے ڈئزائن میں تبدیلی کے ذریعے اس کی مقدار کم کرنا ہو، یہ تبدیلیاں اتنی باریک اور معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عام صارف کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف مصنوعات کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مقدار میں بتدریج 3 فیصد سے 30 فیصد تک کی کمی کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کارپوریٹ پریکٹس رواں سال اور زیادہ عام ہو گئی ہے۔ کمپنیاں مہنگائی کے بہانے کو قیمتوں میں اضافے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ انسانوں کی خوراک سے لیکر جانوروں کی خوراک تک مصنوعات کی مقدار کو کم اور قیمتوں کو زیادہ کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ہمارے معاشی نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سرمایہ داری کے تحت کمپنیوں کو ہر چیز کی قیمت پر منافع کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کو ماحول، حکومت یا صارفین سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ان کا مقصد صرف ان سے پیسے حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ کوئی بھی اضافی مالی سرمایہ کاری ان کے منافع کے مارجن میں کمی لائے گی۔
نجی کمپنیاں اپنے بورڈ رومز میں بند دروازوں کے پیچھے مصنوعات کے سائز اور قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہیں، وہ صرف اپنے شیئر ہولڈرز کو جواب دیتی ہیں۔ ہم میں سے باقی ان کے غیر جمہوری فرمانوں کے تحت رہتے ہیں، جو کچھ وہ ہمیں دیتے ہیں وہ ہم لے لیتے ہیں۔ وہ یہ فیصلے آرام سے کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ تاہم وہ غلط ہیں، ہمیں ان سے مقدار اور قیمت کا تصفیہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم منظم ہوں تو ان کمپنیوں اور فیکٹریوں پر ہی قبضہ کر سکتے ہیں۔