پاکستان

یہ لانگ مارچ جلد یا بدیر ناکامی کا سامنا کرے گا

فاروق طارق

ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں غیر معمولی شرکت سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ عمران خان کی صورت میں تیسری طا قت کو ملکی سطح پر مصنوعی طور تیار کرنے کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی۔ یہ پریس کانفرنس اس تجربہ سے ناکامی کا اظہار کرنے کے لیے تھی اور خاص طور پر لانگ مارچ سے ایک روز پہلے اس پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے تمام قریبی رابطوں اور سیاست دانوں پر وا ضح کرنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ نہ چلیں اور ا نکا ساتھ نہ دیں۔ لانگ مارچ کا سیاسی انداز میں جواب پریس کانفرنس کر کے دیا گیا، دیگر ریاستی حربے اس کے بعد استعمال کئے جائیں گے۔ یہ وارننگ بھی تھی کہ ابھی سیاسی بات کر رہے ہیں پھر دوسرے طریقے سے بھی نپٹیں گے۔

تاریخ میں بار بار ہواکہ سیاسی طور پر محدود انداز میں سوچنے اور وقتی فائدہ اٹھا نے کے لیے سیا سی درندوں کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور درندے جب طاقتور ہو جاتے ہیں تو وہ پھر انہی کو کھا نے دوڑتے ہیں، جنہوں نے انہیں پالا ہوتا ہے۔ جون 1984ء میں آپریشن بلیوسٹار میں امرتسر گولڈن ٹیمپل میں جنرل سنت بھنڈر سنگھ والا اپنے ساتھیوں سمیت کانگریس حکومت کے ہا تھوں مارے گئے۔ا نہیں کانگریس نے پنجاب میں اکالی دل سیا سی جماعت کے متبادل پروموٹ کیا تھا، مگر وہ کانگریس کے کنٹرول سے باہر ہو گئے اور پھر اسی کے ہا تھوں مارے گئے۔ اس واقعہ کے صرف 4 ماہ بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاند ھی کو 13 اکتوبر 1984ء میں ان کے سکھ محافظوں نے دہلی میں رہائش گاہ کے اندر ہی گولیا ں مار کر ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں بھی اس حکمت عملی کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ اب شدت اختیار کرتی جا ئے گی۔

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی صورت میں انکی انصاف بارے جعلی بڑھک بازی کے مد نظر دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے متبادل 2011ء سے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کچھ فوجی جرنیلوں کے ذہن میں تھا کہ وراثتی سیاست کو ختم کرنے کے لیے تیسری سیاسی طاقت کا ابھرنا ضروری ہے چنانچہ عمران خان کو ابتدا ئی طور پر خیبر پختونخوا میں حکومت دلوائی گئی۔

2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری کو اکٹھا کر کے ایک لانگ مارچ کر دیا گیا، تا کہ عمران خان کی سیاسی پو زیشن بہتر ہوتی رہے۔ پھر 2018ء کے انتخابات سے قبل ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا، جس کے ذریعے پی ٹی آئی کو زیادہ سیٹیں دلوائی جا سکیں۔ پنجاب اور سندھ میں تو ہر حربہ استعمال کیا گیا، اس کے باوجود الیکشن کی رات جب نظر آیا کہ مسلم لیگ نواز ابھی بھی جیت رہی ہے،تو انتخابات کے نتائج روک کر اپنی مرضی کے من پسند نتیجے اناؤ نس کئے گئے اور انتخابات کے فوری بعد آزاد جیتنے والوں کی بو لیاں لگائی گئیں۔

جہانگیر ترین جہاز بھر بھر انکو اسلام آبادلاتے رہے۔ یہی کچھ پنجاب میں ہوا جس کے بعد یہ حکومت بنا سکے۔ مسلم لیگ نواز کا دور بھی کوئی آئیڈیل نہیں تھا، سرمایہ درانہ معاشی پالیسیوں کو ہی فروغ دیا گیا مگر ان کی جانب سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اثرات انکی سیاسی حمایت کی صورت میں نظر آئے۔

2018ء سے 2022ء تک کے 4 سال کے دوران عمران خان کی تمام تر بڑھک بازی ایکسپوز ہوئی۔ عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پالا تھا، اب اپنے پر نکالنے اوراپنی من مرضی کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ان فوجی جرنیلوں کو بھی آنکھیں دکھائی جانے لگیں، جنہوں نے انہیں پالا، اب ان کے ا ثر سے باہر ہونے کی کوشش شروع ہو چکی تھی۔ ایک ضدی، گھمنڈی، مغرور، تنگ نظر، اپنی ذات میں مگن، اپنے آپ کو سب سے ذہین سمجھنے والا نااہل سیاست دان اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں سے گرتا جارہا تھا۔

معاشی بحران عروج پر تھا۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی ایجنٹی کرنے والوں کا راج تھا۔ حفیظ شیخ نے معیشت کو نچوڑ کر عالمی سامراجی اداروں کو رقم واپس کرنے کی پالیسی اپنائی، جس کی وجہ سے عمران خان کی عدم مقبولیت بڑھ رہی تھی۔ اندرونی خلفشار نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا اور تحریک عدم اعتماد کی صورت نتیجہ نکلا۔

عمران خان اب جعلی طورپر امریکہ مخالف بن کر ابھرنا چاہتے تھے اور پھر چند جلسوں کی بنیاد پر ان کی جانب سے عجلت میں 25 مئی کو لانگ مارچ کااعلان کیا گیا، جسے ریاستی جبر سے روکوایا گیا۔ عمران خان کی مقبولیت انتہائی کم درجہ پرتھی کہ مفتاح اسماعیل نے پٹرول کی قیمت 150 روپے 250 روپے کرنے کا اعلان کیا توپھر دو کروڑ موٹر سائیکل سواروں نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو مزا چکھادیا۔ اس کی سزا انہیں پنجاب حکومت کھونے کی صورت ملی۔

عمران خان اب ہرصورت اقتدار میں آنے کے لیے بے چین تھے، مگر انہیں معلوم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اب حاصل نہیں ہے۔ خان نے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ کروڑوں افراد کوبھی اقتدار کی لالچ میں مکمل طورپر فراموش کیا اور اپنے طورپر جلسے جلوسوں کے ذریعے عوامی موبلائزیشن کو لانگ مارچ کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جلسوں میں عوام کی ابتدائی شرکت متاثر کن تھی، مگر عمران خان کی ”عوامی حمایت“ کسی ٹھوس معاشی بنیاد پر نہ تھی۔ یہ جذباتی نعروں کے ذریعے پاکستانی عوام کی ”حقیقی آزادی“ کی بات کرتے رہے۔ ایک بے ایمان، مغرور، گھمنڈی سرمایہ دار سیاست دان کس طرح ”حقیقی آزادی“ کا علمبردار بن سکتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس بنیاد پر عمران خان کو لانگ لاسٹنگ عوامی حمایت ملے۔

عمران خان کا لانگ مارچ اسلام آباد تک پہنچتا ہے یا نہیں،لیکن اس بات کے قوی امکان ہے کہ یہ لانگ مارچ موجودہ سیٹ اپ کو ختم کرنے اور ایک نئی عبوری حکومت بنانے میں ناکام ہو جائے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ انتہائی خون خرابے کی صورت میں فوج براۂ راست اقتدار سنبھال لے۔ مگر عمران خان پھربھی ان کے فیورٹ نہیں بن سکیں گے۔

عمران خان کی سماجی بنیاد کسی حد تک مڈل کلاس میں ہے، یہ کلاس کبھی ریاستی جبر کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اکا دکا مثالیں اوربات ہے، ایک مضبوط سماجی بنیاد کے بغیر جذباتی نعروں کا سہارا لے کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی بیانیہ وقتی طورپر عوام میں مقبول ہوسکتا ہے، وہ بھی جلسے جلوسوں میں شرکت کی حد تک، مگر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب سرمایہ داری کامعاشی بحران عالمی سطح پنجے گاڑے ہو اور پاکستان اس کی شدید زد میں ہو۔ عمران خان کا لانگ مارچ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ”ملکی حالات کو مزید بگاڑنے“ والا ہی بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ اس کوا داروں کی حمایت بھی نہیں ملے گی اور بڑے پیمانے پر عوامی حمایت بھی نہیں مل پائے گی۔ یہ لانگ مارچ اپنی ناکامی کا سامنا جلد یا بدیر دیکھے گا۔

محنت کش عوام کو اس لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی موجودہ حکومت کی کوئی حمایت کرناچاہیے، انہیں اپنی طبقاتی صفوں کو مزید مضبوط کرناچاہیے اور اپنی نئی انقلابی سیاسی طاقت حقوق خلق پارٹی کو مضبوط کرناچاہیے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔