شاعری

طلوع اشتراکیت

ساحر لدھیانوی

جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں

جاگے ہیں افلاس کے مارے اٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم آنکھوں میں بجلی کے شرارے

چوک چوک پر گلی گلی میں سرخ پھریرے لہراتے ہیں
مظلوموں کے باغی لشکر سیل صفت امڈے آتے ہیں

شاہی درباروں کے در سے فوجی پہرے ختم ہوئے ہیں
ذاتی جاگیروں کے حق اور مہمل دعوے ختم ہوئے ہیں

شور مچا ہے بازاروں میں ٹوٹ گئے در زندانوں کے
واپس مانگ رہی ہے دنیا غصب شدہ حق انسانوں کے

رسوا بازاری خاتونیں حق انسانی مانگ رہی ہیں
صدیوں کی خاموش زبانیں سحر نوائی مانگ رہی ہیں

روندی کچلی آوازوں کے شور سے دھرتی گونج اٹھی ہے
دنیا کے اینائے نگر میں حق کی پہلی گونج اٹھی ہے

جمع ہوئے ہیں چوراہوں پر آ کے بھوکے اور گداگر
ایک لپکتی آندھی بن کر ایک بھبکتا شعلہ ہو کر

کاندھوں پر سنگین کدالیں ہونٹوں پر بے باک ترانے
دہقانوں کے دل نکلے ہیں اپنی بگڑی آپ بنانے

آج پرانی تدبیروں سے آگ کے شعلے تھم نہ سکیں گے
ابھرے جذبے دب نہ سکیں گے اکھڑے پرچم جم نہ سکیں گے

راج محل کے دربانوں سے یہ سرکش طوفاں نہ رکے گا
چند کرائے کے تنکوں سے سیل بے پایاں نہ رکے گا

کانپ رہے ہیں ظالم سلطاں ٹوٹ گئے دل جباروں کے
بھاگ رہے ہیں ظل الٰہی منہ اترے ہیں غداروں کے

ایک نیا سورج چمکا ہے ایک انوکھی ضو باری ہے
ختم ہوئی افراد کی شاہی ابجمہور کی سالاری ہے

Roznama Jeddojehad
+ posts