خبریں/تبصرے

افغان عورتوں کا احتجاجاً خود سوزی کرنیوالی ایرانی فٹ بال فین کیلئے انوکھا مظاہرہ

فاروق سلہریا

کابل میں ہونیوالے ایک فٹ بال میچ کے دوران نوجوان خواتین نے ایرانی عورتوں سے اظہارِیکجہتی کے لئے سحر خدا یاری کے پوسٹرز کے ساتھ شرکت کی۔

8 ستمبر کو ایرانی فٹ بال فین سحر خدایاری ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔ ان کی افسوسناک وفات عالمی میڈیا میں ایک المیے کے طور پر نمایاں رہی۔ سحر خدا یاری فٹ بال کی دلدادہ تھیں۔ وہ تہران کے فٹ بال کلب ”استقلال“ کی حمایت کرتی تھیں۔ ”العین“ کلب کے خلاف وہ اپنی پسندید ہ ٹیم کا میچ دیکھنے کے لئے مردوں کا بھیس بنا کر اسٹیڈیم پہنچنے کی کوشش میں گرفتار ہو گئیں۔

ایران میں خواتین مردوں کا میچ اسٹیڈیم میں جا کر نہیں دیکھ سکتیں۔ انہیں گرفتار کر کے دادگاہ انقلابِ تہران (تہران کی انقلابی عدالت)کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنا دی۔ سحر خدا یاری نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف عدالت کے سامنے خود سوزی کر لی اور ایک ہفتے کے بعد ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔

ان سے یکجہتی کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں احتجاج ہوا۔ وہ ایران میں مزاحمت کا ایک استعارہ بن گئی ہیں۔ اسی حوالے سے ایک جراتمندانہ مظاہرہ کابل کی نوجوان خواتین نے منظم کیا۔

واضح رہے افغانستان میں بھی پچھلے چالیس سالوں کے دوران بنیاد پرستی کے متشدد ابھار نے یہ ممکن نہیں رہنے دیا کہ عورتیں فٹ بال اسٹیڈیم یا سینما وغیرہ جا سکیں۔ اس لحاظ سے یہ انتہائی جراتمندانہ اور اہم واقعہ تھاکہ درجنوں افغان خواتین فٹ بال میچ دیکھنے کابل اسٹیڈیم پہنچیں۔

بی بی سی فارسی کی مندجہ ذیل ویڈیو میں فرحناز فروتن، جو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، بی بی سی کو بتا رہی ہیں:” ہم اظہارِ یکجہتی کے لئے یہاں جمع ہیں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں عورتیں اسٹیڈیم میں بھی نہیں جا سکتیں۔ خود سوزی ہم سب کے لئے ایک وارننگ ہے“۔

اسی طرح مظاہرے میں شریک نرگس آذریون، جو انسانی حقوق کے لئے کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے: ”ہر خود سوزی ہر آزادی پسند عورت کا مسئلہ ہے۔ ایک دن آئے گا کہ دنیا بھر میں کسی عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا“۔

سحر خدا یاری اپنی افسوسناک موت کے بعد ”دختر آبی“ (بلیو گرل)کے نام سے جانی جا رہی ہیں۔ اسی حوالے سے کابل میں مظاہرین نے جو پوسٹر اٹھا رکھے ہیں ان پر ”دختر آبی“ درج ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔