لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکی تاریخ کے مہنگے ترین وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس سینیٹ پر کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ کی قیادت میں ریپبلکنز مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق ڈیموکریٹک سینیٹر کیتھرین کارٹیز مستو نے ریپبلکن ایڈم لکسلٹ کو شکست دی ہے، جو ریاست کے سابق اٹارنی جنرل ہیں، جن کی توثیق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی۔
ایریزونا میں ڈیموکریٹک سینیٹر مارک کیلی کے دوبارہ انتخاب اور مستو کی فتح کے ساتھ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی 50 نشستیں ہو گئیں، جبکہ ریپبلکنز 49 نشستوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ جارجیا میں، جہاں کسی بھی امیدوار نے اکثریت حاصل نہیں کی، دسمبر میں رن آف انتخابات ہونگے۔ تاہم ریپبلکن جیت بھی گئے تو سینیٹ پر ڈیموکریٹس سے کنٹرول چھین نہیں پائیں گے، کیونکہ ٹائینگ ووٹ نائب صدر کملا ہیرس کاہے۔
ڈیموکریٹس کی اس فتح کو ریپبلکنز کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف انتخابی کارکردگی صدر جو بائیڈن کے 2024ء کی صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کی قیاس آرائیوں کو کم کرنے کا باعث بنے گی۔
’انٹرنیشنل ویو پوائنٹ‘ کے مطابق ڈیموکریٹس کی کامیابی میں نوجوان واٹروں، خواتین اور سیاہ فاموں کا کلیدی کردار تھا اور کئی ترقی پسند امیدواروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
وسط مدتی انتخابات امریکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔ انتخابات میں دونوں جماعتوں نے 16 ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے۔ ارب پتیوں نے دونوں پارٹیوں پر بھاری سرمایہ خرچ کیا۔ ارب پتیوں کی فنڈنگ کا حصہ ریپبلکنز کی کل فنڈنگ میں 20 فیصد تھا، جبکہ ڈیموکریٹس کی فنڈنگ کا 14.5 فیصد بنتا ہے۔ ڈیموکریٹس نے ریپبلکنز کے مقابلے میں زیادہ چھوٹے عطیات وصول کئے، تاہم ریپبلکنز نے ڈیموکریٹس سے 200 ملین ڈالر زائد انتخابی اخراجات کئے۔ ہمیشہ کی طرح ڈیموکریٹس کو کئی بڑی مزدور یونینوں کی حمایت حاصل تھی، جنہوں نے اپنے اراکین کو ڈور ٹو ڈور مہم چلانے، فون کالز کرنے اور الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کیلئے متحرک کیا۔ تاہم بہت سے سفید فارم تعمیراتی کارکن اور اسٹیل ورکرز ریپبلکن امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈیموکریٹک کیمپ کے اندر ترقی پسند امیدواروں نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ سمرلی نے پنسلوانیا میں کامیابی حاصل کی، ٹیکساس میں گریگ کیسر، فلوریڈا میں میکسویل فراسٹ اور برنی سینڈرز کی توثیق کے ساتھ ریبیکا بیلنٹ نے بھی کامیابی حاصل کی۔
ترقی پسندی کے لیبل کو مسترد کرنے والے مگر ترقی پسند خیالات رکھنے والے جان فیٹرمین نے محنت کش طبقے کے امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور پنسلوانیا میں امریکی سینیٹ کی نشست جیتی۔
نیو یارک میں ڈیموکریٹس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کی نشستیں کھو دیں۔ سوشلسٹ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ریاستی پارٹی کی بنیادوں اور شاخ کی تنظیم نو کا مطالبہ کیا ہے۔
بائیڈن کا صدارتی انتخابات کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہونے کا ارادہ ان کی صحت اور اہل خانہ کے ساتھ گفتگو پر منحصر ہے۔ بائیڈن 79 سال کے ہیں اور لوگوں کی نظر میں بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، اس وقت کوئی واضح متبادل بھی نہیں ہے۔ برنی سینڈرز، جو دو صدارتی دوڑ ہا رچکے ہیں، اب 81 برس کے ہیں۔
امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیاں دائیں بازو کی نمائندہ ہیں اور تاریخی طور پر بائیں بازو کی یا محنت کشوں کی پارٹی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ 1996ء میں مزدور یونینوں کے ایک گروپ نے لیبر پارٹی کی بنیاد رکھی،لیکن اس نے کبھی بھی قومی امیدوار نہیں سامنے لائے۔ بعد میں بائیں بازو کے کچھ لوگوں نے گرین پارٹی کی حمایت کی۔ تاہم بائیں بازو کے امیدوار کی حمایت کے نتیجے میں ڈیموکریٹس کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے اور ریپبلکنز کو راستہ فراہم کرنے کے خدشات بھی ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ گرینز یا دیگر بائیں بازو کی جماعتوں کے امیدواروں کو عام طور پر بہت کم ووٹ ملتے ہیں۔
’انٹرنیشنل ویو پوائنٹ‘ کے مطابق بائیں بازو میں یہ بحث ہے کہ آیا کوئی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر مستقبل کی سوشلسٹ پارٹی بنا سکتا ہے، یا ماضی کی طرح آزاد سوشلسٹ امیدواروں کو انتخاب لڑنا چاہیے۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک محنت کش طبقے کی عوامی تحریک نہیں ہوگی، سوشلسٹ پارٹی کا قیام ایجنڈے میں شامل نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی صورت میں سرخ لہر(ریپبلکنز) کے خاتمے سے ہمیں تحریک کی تعمیر اور درست سیاسی راستہ تلاش کرنے کیلئے مزید چند سال ملتے ہیں۔