ماحولیات

وزیر اعظم سائیکل چلانے والا چا ہئے مگر خود تھیلا اٹھانے پر تیار نہیں!

فاروق سلہریا

اسلام آباد میں حکومت نے پلاسٹک کے استعمال پر جزوی پابندی لگا دی ہے۔ یہ ایک دیر سے کیا جانے والا مگر اہم اور درست اقدام ہے(البتہ ہلکی پھلکی پابندیاں ماضی میں بھی لگتی رہی ہیں)۔ فی الحال یہ پابندی خریداری وغیرہ کے لئے استعمال ہونے والے شاپرز پر لگائی گئی ہے۔ دوائیوں وغیرہ کے لئے اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہونا چاہئے کہ اس پابندی کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ نہ صرف مکمل پابندی کی جانب جانا چاہئے بلکہ اس پابندی کا نفاذ پورے ملک میں ہونا چاہئے۔ کینیا یہ پابندی چند سال قبل لگا چکا ہے اور وہاں اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ محض پابندی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پابندی پر عمل درآمد، متبادل کی فراہمی اور سب سے اہم یہ کہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے اور انہیں تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ پابندی بہت جلد کمزور اور غریب کے گلے کا پھندا اور طاقتور کے پاؤں کی چپل بن کر رہ جاتی ہے۔

اس تحریر کا موضوع البتہ اس پابندی کی طرف لوگوں کا عمومی رویہ ہے۔ بہت سارے میڈیا آوٹ لیٹ اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اسلام آباد کے رہائشیوں کے ردِ عمل کو جگہ دے رہے ہیں۔ اکثریت کی شکایت ہے: ”بہت مشکل پیش آتی ہے جی۔ پہلے آرام سے جاتے تھے اور چیزیں خرید کر لے آتے تھے۔ اب کپڑے کے تھیلے گھر سے لے کر جانے پڑتے ہیں“۔

دلچسپ بات ہے یہ تن آزاد خواتین و حضرات ہالینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کے وزرا ئے اعظموں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے جو سائیکل پر اپنے دفاتر جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ”مشکلات“ کی شکایت کرنے والی اس قوم کو جنگ کا بھی بہت شوق ہے۔ خدانخواستہ اگر کبھی جنگ سچ میں لگ گئی اور چار چھ سال راشنگ کرنی پڑی تو اس باہمت قوم کا کیا بنے گا جو اتنا بھی منظم نہیں کہ اپنا ہی پیٹ بھرنے کے لئے گھر سے نکلتے وقت آدھ چھٹانک کا تھیلا اٹھا لے؟ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ ملک بھر میں لوگ جب خریداری کرنے جاتے تو ساتھ تھیلے لے کر جاتے تھے۔ خواتین گھر سے سبزی کی ٹوکری لے کر نکلتی تھیں۔ دودھ دہی کا برتن بھی لوگ گھر سے لے کر نکلتے تھے۔ کبھی ڈھابے سے سالن خریدنا ہوتا تو بھی برتن گھر سے ساتھ لے کر جاتے تھے۔

یاد رہے پلاسٹک ہماری زراعت اور ماحول کو ہی تباہ نہیں کر رہا۔ بلکہ دنیا بھر میں پلاسٹک کا ایک بڑا حصہ آخر میں سمندروں میں جا گرتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے پھینکے ہوئے پلاسٹک لفافے، سٹرااور بوتلیں مچھلیوں، کچھووں اور مگر مچھو ں کی جان لے رہے ہیں۔

جان لینی ہے تو ان سرمایہ دارانہ مگر مچھوں کی لیجئے جنہوں نے اس کائنات کو جہنم بنا رکھا ہے۔ آبی حیات کا اس میں کیا قصور کہ آپ گھر سے تھیلا لے کر نہیں نکلتے؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔