پاکستان

جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات ری شیڈول، سازشیں پھر بھی جاری

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کو ایک بار پھر ری شیڈول کر دیا گیا ہے۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انتخابی شیڈول میں ایک بار پھر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ طے ہو گیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔

اپوزیشن کے بھرپو راحتجاج، رخنے ڈالنے کے سلسلہ اور وزیر اعظم تنویر الیاس کی جانب سے عین انتخابات سے ایک ہفتہ قبل سکیورٹی فورسز کی فراہمی کی ذمہ داری سے دستبرداری نے انتخابات کا انعقاد خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے ریاستی پولیس نفری کو استعمال میں لاتے ہوئے مرحلہ وار انتخابات کیلئے شیڈول جاری کر کے اپوزیشن اور حکومت کی تمام چالیں ناکام بنا دیں۔ تاہم اب اپوزیشن اور حکومت کی بیٹھک کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز کی فراہمی یقینی بنائے جانے اور انتخابات ایک ہی روز منعقد کروانے کیلئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے تین ڈویژن کے انتخابات تین مرحلوں میں کرنے کیلئے 27 نومبر کو مظفر آباد ڈویژن، 3 دسمبر کو پونچھ ڈویژن اور 8 دسمبر کو میرپور ڈویژن میں پولنگ کا شیڈول جاری کیا ہے۔ اب اپوزیشن اور حکومت کی کوشش ہے کہ ایک ہی روز 8 دسمبر کو تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروایا جائے۔

بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اس خطے کے 10 اضلاع میں مجموعی طور پر 2343 دیہی اور شہری وارڈز، جبکہ 280 ڈسٹرکٹ کونسلوں کے نمائندگان کا انتخاب کیا جانا ہے۔ حلقہ بندیوں کے تحت اس خطے کے 10 اضلاع کو 263 شہری وارڈز، 2080 دیہی وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے، جو 5 میونسپل کارپوریشن، 14 میونسپل کمیٹیوں، 12 ٹاؤن کمیٹیوں اور 280 یونین کونسلوں پر مشتمل ہیں۔ 10 ہزار سے زائد امیدواران میدان میں ہیں۔

ان انتخابات میں مجموعی طور پر 29 لاکھ 48 ہزار 200 رائے دہندگان حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں، جن میں 15 لاکھ 64 ہزار 902 مرد اور 13 لاکھ 83 ہزار 102 خواتین رائے دہندگان شامل ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کیلئے تمام 10 اضلاع میں مجموعی طور پر 5360 پولنگ اسٹیشن اور 7957 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔

انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں 31 سال بعد سپریم کورٹ کے حکم پر کی جا رہی ہیں۔ تاہم ابھی بھی انتخابات کا انعقاد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ قبل ازیں 1996ء میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں، امیدواران کی انتخابی مہم بھی زوروں پر تھی۔ تاہم انتخابات طے شدہ شیڈول سے تین روز قبل ملتوی کئے گئے تھے، جو تاحال دوبارہ نہیں ہو سکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیڈول جاری ہونے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام تیاریاں جاری رکھے جانے کے باوجود امیدواران اور ووٹر انتخابات کے انعقاد پر یقین کرنے سے گریزاں ہیں۔

حکمران اشرافیہ کی نمائندہ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رکوانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بلدیاتی انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ بعد ازاں حلقہ بندیوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کو الجھانے کی کوشش بھی ناکام ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اختیار واپس لینے کی قانون سازی کا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ یہ بل سپریم کورٹ کی جانب سے دو ماہ کا وقت دیئے جانے پر واپس تو لیا گیا، تاہم دو ماہ بعد پھر انتخابات کی تیاری شروع ہوئی تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز اجلاس کے انعقاد کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو روکنے کیلئے کوششیں شروع کر دی گئی تھیں، جو تاحال جاری ہیں۔

الیکشن کمیشن نے تین مرحلوں میں انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کی تجویز دی، جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر مبینہ دھاندلی کو جواز بنا کر یکمشت انتخابات کے انعقاد کیلئے احکامات جاری کروا دیئے، ساتھ ہی ناگزیر صورت میں تین مرحلوں میں تین روز کے وقفے کے ساتھ انتخابات کی چھوٹ بھی دی گئی۔ ایک ہی وقت میں انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد پاکستان کی سیاسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے سکیورٹی فورسز فراہم کرنے سے معذرت کر لی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار انتخابات کیلئے شیڈول جاری کر دیا، جس کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت کی گئی اور انتخابات میں احتجاجاً حصہ لینے کا اعلان کیا گیاہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم اپنے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے اور الیکشن کمیشن کو مسلسل یقین دہانی کرواتے رہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کا انتظام یقینی بنائیں گے، اس لئے انتخابات بہر صورت مقررہ وقت پر کروانے کی تیاریاں مکمل کی جائیں۔ تاہم انتخابات سے 6 روز قبل انہوں نے فورسز کی فراہمی کی ذمہ داری سے دستبرداری کا مکتوب لکھ کر اپنے عزائم واضح کر دیئے ہیں۔

حکمران جماعت سمیت حکمران اشرافیہ کی تمام نمائندہ جماعتیں اور شخصیات بشمول ریاستی ادارے ان انتخابات کے انعقاد کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی سپریم کورٹ کے ساتھ براۂ راست تصادم نہیں کرنا چاہتا۔ سب ہی توہین عدالت کی تلوار دوسرے کے سر لٹکا کر بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے پاس اب انتخابات سے راہ فرار کا ایک ہی راستہ تھا کہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے، لیکن ایسا کرنے میں سیاسی جماعتوں میں مزید ٹوٹ پھوٹ اور بغاوتوں کے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کی تمام جماعتوں نے احتجاجاً انتخابات میں حصہ لینے کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انتخابات کے ایک ہی روز انعقاد کیلئے کوششیں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

ان انتخابات میں قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کے نمائندگان کے علاوہ سوشلسٹ رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد بھی آزاد امیدواران کے طور پر حصہ لے رہی ہے۔ مجموعی طور پر آزاد امیدواران اکثریت میں ہیں، جو انتخابات کو موخر کئے جانے کی صورت میں احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

سیاسی جماعتیں بالخصوص ممبران اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی راہ میں اس لئے رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں کہ ان کے پاس اس سیاست میں کمائی کا واحد ذریعہ ترقیاتی بجٹ ہے۔ اس ترقیاتی بجٹ کو وہ اپنا ووٹ بینک بڑھانے، لوکل گورنمنٹ کے بجٹ کو اپنے من پسند افراد میں جعلی سکیموں کے طورپر تقسیم کرنے کے علاوہ ٹھیکوں اور جعلی سکیموں سے اپنا کمیشن وصول کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اگر بلدیاتی نمائندگان منتخب ہو کر آتے ہیں تو یہ ممبران اسمبلی اس ترقیاتی بجٹ سے نہ صرف محروم ہو جائیں گے، بلکہ اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کیلئے استعمال ہونے والے ان مہروں سے بھی محروم ہو جائیں گے، جو جعلی سکیموں کے عوض بھاری سرمایہ جمع کر کے ممبران اسمبلی کے فرنٹ مینوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔

جس نئی سیاسی پرت کو سامنے آنے سے روکنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، وہ انتخابی مہم کے دوران نہ صرف سامنے آچکی ہے، بلکہ اپنے سیاسی حق کے حصول کیلئے کمر بستہ بھی نظر آتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ملتوی ہونے کی صورت میں اس خطہ میں احتجاج کی ایک نئی لہر کا ابھار ہو سکتا ہے۔ یہ احتجاج محض بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے مطالبے تک محدود نہیں رہے گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔