لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض بحریہ آئیکون ٹاور کیلئے غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق ریفرنس سے باآسانی نکلنے میں کامیاب ہو گئے، احتساب عدالت اسلام آباد کے مطابق یہ کیس ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔
’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق 19 کروڑ پاؤنڈز (50 ارب روپے) مالیتی اثاثوں کی ریکوری سے متعلق ایک اور کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بھی ملک ریاض پیش نہیں ہو سکے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے موجودہ حکومت کی جانب سے احتساب بیورو میں ترامیم کی بنیاد پر ملزمان کی جانب سے دائر کئے گئے بحریہ آئیکون ٹاور ریفرنس کے اخراج کی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کے پاس ریفرنس کی سماعت کا دائرہ اختیار نہیں، اس لئے یہ کیس قومی احتساب بیورو کو بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ متعلق فورم کو بھیج سکیں۔
یاد رہے کہ یہ ریفرنس 3 سال قبل دائر کیا گیا تھا اور نیب نے 15 مشتبہ ملزمان کو نامزد کیا تھا۔ ریفرنس کے مطابق ملزمان نے باغ ابن قاسم سے متصل پلاٹ کو غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے ٹاور تعمیر کیا ہے، جس سے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
کیس میں نامزد ملزم ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض ملک کے علاوہ دیگر میں ڈاکٹر دنشا، لیاقت قائم خانی، یوسف بلوچ، وقاص رفعت، غلام عارف، خواجہ شفیق، عبدالسبحان میمن، جمیل بلوچ، افضل عزیز، سید محمد شاہ، خرم عارف، عبداللہ، کریم پلیجو اور خواجہ بدیع الزمان شامل ہیں۔
ادھر ملک ریاض کو 19 کروڑ پاؤنڈ کے اثاثوں کی ریکوری سے متعلق تحقیقات کیلئے یکم دسمبر کو طلب کیا گیا تھا، تاہم وہ نیب کے سامنے پیش نہ ہوئے۔
نیب کے خط کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہٰذا آپ کے پاس وہ معلومات اور ثبوت ہیں جو مذکورہ جرم سے متعلقہ ہیں۔
نوٹس میں ملک ریاض کو کہا گیا ہے کہ وہ تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی کی خریداری کے حوالے سے مکمل ریکارڈ پیش کریں، جس کے تحت بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کو زمین عطیہ کی۔ ان کی جانب سے منتقل کی گئی دیگر جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں، نوٹس میں ملک ریاض کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس نوٹس کی تعمیل نہیں کی تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ پر منی لانڈرنگ کیس میں رئیل اسٹیٹ کمپنی کو پس پشت کرنے کیلئے بحریہ ٹاؤن سے 5 ارب روپے اور سیکڑوں کنال اراضی لینے کا الزام لگایا تھا۔
دسمبر 2019ء میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے 19 کروڑ پاؤنڈ کی سیٹلمنٹ کی پیشکش قبول کی تھی، جس کے تحت برطانیہ کی ایک پراپرٹی مالیتی تقریباً 50 کروڑ پاؤنڈ اور اس کے علاوہ وہ تمام رقم جو ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں تھی وہ سب شامل تھی۔
نیشنل کرائم ایجنسی کو 10 کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ کی کل رقم رکھنے والے 8 بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ بیرون ملک رشوت ستانی اور بدعنوانی کیلئے استعمال کئے گئے ہیں۔ دسمبر 2018ء میں معاملے کی سماعت کے بعد تقریباً 20 کروڑ پاؤنڈ کو منجمد کر دیا گیا تھا۔
اسی سال مارچ میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی تھی، جس میں سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین بحریہ ٹاؤن کو دیا جانا غیر قانونی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر الزام تھا کہ انہوں نے این سی اے کی تحقیقات کے دوران بحریہ ٹاؤن سے اربوں روپے نقد اور سیکڑوں کنال زمین کے بدلنے ملک ریاض کی مدد کی۔
اس سے قبل نیب نے عمران خون کی کابینہ کے 21 اراکین کو نوٹس بھیجا تھا، جس میں غلام سرور خان، مراد سعید، پرویز خٹک، شفقت محمود، شیریں مزاری، علی حیدر زیدی اور حماد اظہر بھی شامل ہیں۔