عدنان فاروق
بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات پنجاب پولیس پانچ طالب علم رہنماؤں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر لے گئی۔ ان میں سے ایک، زبیر صدیقی، پولیس کے ہاتھوں طلبہ مظاہرے میں زخمی ہوئے تھے۔ ابھی ان کے زخم بھی مندمل نہیں ہوئے۔ ایک دن قبل، ان کی ضمانت بھی منظور کی گئی مگر اس سے فرق نہیں پڑتا۔
پولیس پنجاب کی ہو یا کسی دوسرے صوبے کی، اس شرمناک نظام میں اس کا کام ہے بدمعاش سرمایہ داروں کے کاروبار یقینی بنانا۔ اگر کسی سرمایہ دار کے کاروبار پر کوئی آنچ آ رہی ہو، ریاست کا متشدد نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔
یہی کچھ اس ہفتے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ منافع خور نجی یونیورسٹیوں کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ تعلیم کا دھندہ کرنے والے مافیا ریاست کی گود میں بیٹھ کر انہی طلبہ پر لاٹھیاں برسا رہے ہیں جن کی جیبوں سے وہ پیسے نکلواتے رہے ہیں۔
اس سارے عمل کی بدترین مثال میاں عامر ہیں۔ تعلیم کے کاروبار سے ارب پتی بننے والے اس شخص نے میڈیا کا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ ’دنیا‘ چینل بھی شروع کیا اور ’دنیا‘ اخبار بھی جاری کیا۔ پاکستان میں اصل کاروبار کو وسعت دینے اور اسے تحفظ دینے کے لئے ٹی وی چینل یا اخبار نکالنا کافی نہیں ہوتا۔
اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات بھی ضروری ہیں۔ اس لئے میاں عامر نے مشرف آمریت کی کھل کر حمایت کی۔ مشرف آمریت کی خدمت کا صلہ یہ ملا کہ موصوف کو لاہور کا لارڈ مئیر بنا دیا گیا۔
اگر آپ میاں عامر کے ’عروج‘ کی کہانی پڑھیں تو ملک ریاض سے کئی طرح کی مماثلت ملے گی۔ ملک ریاض نے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو پہئے لگائے تو میاں عامر نے تعلیم کے شعبے کو۔
دونوں نیو لبرل عہد کی پیداوار ہیں جب ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے تعلیم، صحت، رہائش، نوکری اور دیگر ترقیاتی منصوبوں سے دستبردار ہو کر صرف اس کام پر مامور ہو گئی کہ دھونس دھاندلی سے سرمایہ بنانے والوں سے اپنا حصہ لے اور عوام کو احتجاج کرنے پر ڈنڈے مارے۔
دونوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک عام تاجر سے کھرب پتی بن گئے۔ میاں عامر جمعیت کے ایک کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پھر پنجاب کالج آف کامرس شروع کیا جسے پنجاب یونیورسٹی سے الحاق کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ایک ریٹائر جرنیل کو وائس چانسلر لگایا گیا، اسی دن اس کالج کوالحاق (Affiliation) کا سر ٹیفکیٹ جاری ہو گیا۔
نوے کی دہائی میں ملک ریاض نے صحافت کا رخ کیا اور جناح اخبار نکالا۔ بعد میں انہیں سمجھ آ گئی کہ اخباروں اور چینلوں کو اشتہاروں کے ذریعے زیادہ اچھی طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ میاں عامر نے مشرف دور میں میڈیا کی جانب توجہ دینا شروع کی اور ’دنیا‘ گروپ کی بنیاد رکھی۔ نہ ملک ریاض کے جناح اخبار میں صحافیوں کو بروقت تنخواہ ملتی تھی نہ دنیا گروپ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو کوئی تحفظ حاصل ہے۔
دونوں کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قریب ہیں۔ ریاستی ادارے دونوں کی خدمت کے لئے چوبیس گھنٹے حاضر ہیں۔