لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلتستان کے ضلع شگر کی پولیس نے طالبعلم لیاقت علی المعروف سراج شگری کے خلاف سوشل میڈیا پرایک پوسٹ کرنے کی وجہ سے غداری اور اداروں کو بدنام کرنے کی دفعات کے تحت درج مقدمہ منظر عام پر لایا گیا ہے۔ بلتستان سول سوسائٹی نے سکردو کے یادگار چوک میں اس مقدمہ کے خلاف احتجاج کیا ہے، جس میں سینکڑوں شہریوں نے شرکت کی اور مقدمہ فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
واقعات کے مطابق سراج شگری کی ٹویٹر پر گزشتہ سال 10 ستمبر کو کی گئی ایک پوسٹ کو بنیاد بنا کر 13 ستمبر کو مقدمہ زیر دفعات 500، 501، 505، 154، 124A درج کیا گیا تھا۔ تاہم چند روز قبل پولیس کی جانب سے سراج شگری کے گھر پر اطلاع دی گئی کہ اس کے خلاف مقدمہ درج ہے، اسے تھانے پیش کریں۔ جس کے بعد بلتستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی تنظیموں نے اس مقدمہ کے اندراج کے خلاف احتجاج کیا ہے اور فی الفور مقدمہ واپس لئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کے روز سکردو کے یادگار چوک میں بلتستان سول سوسائٹی کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے شبیر مایار، نجب علی، احمد شگری اور دیگر مقررین نے کہا کہ بلتستان میں جاری عوامی حقوق کی تحریک سے خائف ہو کر انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
سراج شگری ایک طالبعلم ہیں اور گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کیلئے سوشل میڈیا سمیت عملی میدان میں بھی وہ آواز اٹھاتے اور بات کرتے ہیں۔ باشعور نوجوانوں کو سچ بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ فوری طور پر مقدمہ واپس لیا جائے بصورت دیگر احتجاج کو وسیع کیا جائے گا۔
سراج شگری کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی مختلف طلبہ تنظیموں، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں و کارکنوں نے مذمت کی ہے۔
بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر کا اندراج ریاست کی کمزوری کا ثبوت ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں پر جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طاقتور لوگوں اور گروہوں سے ریاست خود ڈرتی ہے، جبکہ کمزور لوگوں کو مقدمات سے ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ ریاست غریب اور کمزور لوگوں کا سہارا بننے کی بجائے انہیں مسمار کرنا چاہتی ہے۔ سراج شگری کے خلاف مقدمہ فوری طو پر ختم کیا جائے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی ترجمان بدر رفیق نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ سراج شگری کے خلاف غداری جیسا مقدمہ قائم کرنا ریاستی بربریت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو اس طرح غداری کے مقدمات میں الجھا کر ریاست ہر قسم کی اختلافی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر سوال کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنا اور ان مقدمات کو مناسب وقت کیلئے سنبھال کر رکھنا تشویشناک عمل ہے۔ جب بلتستان میں عوامی تحریک کا ابھار شروع ہوا تو ایسے نوجوانوں کے خلاف مقدمات سامنے لائے جانے لگے، جو اس تحریک کو بڑھاوا دینے میں کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ ریاست کے کھوکھلے پن اور خوفزدگی کا اظہار ہے۔ این ایس ایف سراج شگری اور گلگت بلتستان کے تمام سیاسی کارکنوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم ان سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں اس طرح کے انتقامی مقدمات کو فوری خارج کیا جائے، بصورت دیگر صرف گلگت بلتستان میں نہیں بلکہ جموں کشمیر میں بھی احتجاج کیا جائے گا۔
سراج شگری نے حال ہی میں یونیورسٹی تعلیم مکمل کی ہے اور وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ ماضی قریب تک بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن (بی ایس ایف) کے مرکزی عہدیدار اور رکن رہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے، وسائل کی لوٹ مار اور زمینوں پر قبضے کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور کافی سرگرم رہتے ہیں۔ انہوں نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں چند روز پہلے ہی پتہ چلا کہ ان کے خلاف کوئی اس نوعیت کا مقدمہ درج ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ان کے گھر پر ان سے متعلق پولیس نے پوچھ گچھ کی جس کے بعد ساتھیوں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ درج ہے، جس پر اب گرفتاری کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا، عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے اپنی بساط کے مطابق ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔