پاکستان

جموں کشمیر: بجلی پر سبسڈی اور رعایتیں، فائدہ کسے ہوتا ہے؟

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کو بجلی کی فراہمی کا معاملہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی وفاقی حکومت اور مقامی حکومت کے مابین تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ 5 سالوں کے دوران یہ تیسرا ایسا موقع ہے کہ جب ٹیرف اور واٹر یوز چارجز کے معاملے پر دونوں حکومتوں کے مابین بیان بازی ہو رہی ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو بجلی کی رعایتی قیمت کیلئے بھاری سبسڈی دی جا رہی ہے۔ یہ سبسڈی پاکستان کے دو صوبوں اور وفاق کی تقسیم کار کمپنیوں کیلئے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اس طرح گردشی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم کار کمپنیاں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو نادہندگان کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے بجلی کی زیادہ لوڈشیڈنگ والے علاقوں میں شامل کئے ہوئے ہیں۔

اس وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے سبسڈی ختم کرنے اور ملک کی دیگر تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کئے جانے والے نرخوں پر ہی بجلی فراہم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کر دیا ہے۔ اس اعلان کو آئی ایم ایف کی شرائط سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم مقامی حکومت کے وزراء کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کا یہ اقدام منگلا ڈیم کی تعمیر کے معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

اس سے قبل بھی محکمہ برقیات کو تقسیم کار کمپنی میں تبدیل کر کے نجکاری کرنے اور واٹر یوز چارجز میں اضافے کے ساتھ بجلی کے ٹیرف میں دوگنا اضافہ کرنے کا اصولی فیصلہ دونوں حکومتوں کے مابین گزشتہ دور حکومت میں ہو چکا ہے۔ تاہم تاحال اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔

اس معاملے پر پاکستان کی وفاقی حکومت کے فیصلے کے حق میں مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھے جا رہے ہیں اور سبسڈی کو نقصان سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ سبسڈی بھی ایک ایسا معمہ ہے، جسے سمجھنا اشد ضروری ہے۔

حکمران طبقات اور بیوروکریسی انتہائی سادہ امور کی قانون سازی اور معاہدہ جات کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر ترتیب دیتے ہیں تاکہ عام آدمی ان امور کے حوالے سے کسی واضح نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ قانونی شقوں کے ہیر پھیر، معاہدہ جات اور ضوابط کے اس الجھاؤ کے نتیجے میں عام لوگوں کی جیبوں پرڈاکہ ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ قوانین، ضوابط اور معاہدے ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں۔ تاہم حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی بجلی سے متعلق بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے۔

خطہ سے ہونے والی بجلی کی پیداواراور معاہد ے

اس خطہ میں منگلا ڈیم (1100میگا واٹ)، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ (969 میگا واٹ)، ہولاڑ کروٹ پاور پراجیکٹ (720 میگا واٹ)، گلپور پاور پراجیکٹ (102 میگا واٹ)، جاگراں پاور پراجیکٹ (44 میگا واٹ) تعمیر شدہ اور پاکستان کے نیشنل گرڈ میں بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوہالہ پاور پراجیکٹ (1124 میگا واٹ)، آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (700 میگا واٹ) سمیت دیگر ہائیڈروپاور منصوبہ جات زیر تعمیر و زیر بحث ہیں۔ یوں 3 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی اس وقت بھی اس خطہ سے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں جا رہی ہے۔

1962ء میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا کہ میرپور (جہاں یہ ڈیم تعمیر کیا گیا) ضلع کو بجلی مفت فراہم کی جائے گی، باقی اضلاع میں بجلی انتہائی معمولی نرخوں پر فراہم کی جائے گی۔ تاہم اس بابت کوئی تحریری معاہدہ یا نوٹیفکیشن منظر عام پر نہیں آ سکا، صرف زبانی بات ہی کی جاتی رہی ہے۔ 1967ء سے منگلا ڈیم کی تکمیل کے بعد بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی تھی۔

تاہم منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ کے موقع پر 2003ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت متاثرین کے معاملات سمیت بجلی کے ٹیرف پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔

اس معاہدے کی شق 5.2 (b) کے مطابق ستمبر 2003ء سے آگے بجلی کا ٹیرف 2.59 روپے فی یونٹ یا فی کلو واٹ آور حکومت پاکستان کی طرف سے وزارت کانا اور سیفران کی قائم کردہ ذیلی کمیٹی کی سفارش پر مقرر کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ کے مطابق منگلا ڈیم کے واٹر یوز چارجز یا رائلٹی کی مد میں 15 پیسے فی یونٹ بھی ادا کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں نیپرا کے مقرر کردہ ٹیرف کے مطابق تقسیم کار کمپنیوں کو پیک، آف پیک اور اوسط ڈیمانڈ کے دوران بالترتیب 15 روپے، 8.85 روپے اور 11.24 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ تقسیم کار کمپنیاں نیپرا کے صارفین کیلئے مقرر کردہ سلیب وائز ٹیرف کے مطابق بجلی فروخت کرتی ہیں۔

مقامی حکومت کو منگلا ڈیم کے واٹر یوز چارجز کی مد میں 70 کروڑ روپے کی رقم بھی واپڈا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے واٹر یوز چارجز 42 پیسے فی یونٹ طے پائے ہیں، تاہم ابھی ادائیگی کے حوالے سے کوئی معلومات میسر نہیں ہے۔ جاگراں اور گلپور کا کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے، ہولاڑ ڈیم کی ملکیت ہی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے نام کر دی گئی ہے۔

اپنی ہی بجلی خریدنے کے باوجود سبسڈی اور قرضہ کیسا؟

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کو 2.59 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ تو کیا گیا۔ تاہم پاکستان کے نیشنل گرڈ سے براہ راست اس خطے کو بجلی فراہم کرنے یا مقامی سطح پر گرڈ اسٹیشن بنا کر اس خطے کی ضرورت کے مطابق بجلی وہاں رکھ کر باقی بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ کو ارسال کئے جانے کی بجائے اس خطے کو مختلف تقسیم کار کمپنیوں کے ذریعے سے بجلی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بھمبر اور میرپور کے کچھ علاقوں میں گوجرالہ کی تقسیم کار کمپنی (گیپکو) کے ذریعے، پونچھ ڈویژن، کوٹلی اورمیرپور کے کچھ علاقوں کو اسلام آباد کی تقسیم کار کمپنی (آئیسکو) کے ذریعے، مظفر آباد ڈویژن کو خیبرپختونخوا کی تقسیم کار کمپنی (پیسکو) کے ذریعے بجلی کی فراہمی کی جا رہی ہے۔

یوں مقامی حکومت نے 2.59 روپے فی یونٹ کے حساب سے حاصل کردہ بجلی کی رقم ادا کرنا تھی، جبکہ تقسیم کار کمپنیوں کو ہونے والے نقصان کا ازالہ وفاقی حکومت نے اپنے ذمے لے لیا اور چند سال بعد 2011ء کو یہ رقم ادا کرنا بند بھی کر دیا۔ اس طرح اپنی ہی بجلی قیمتاً خریدنے اور پوری رقم ادا کرنے کے باوجود مقامی حکومت تقسیم کار کمپنیوں کے 100 ارب روپے سے زائد کی نادہندہ شمار کی جا رہی ہے۔

دوسری طرف حکمران اسے سبسڈی، بھیک اور رعایت کا نام دیکر اس خطے کے لوگوں کو بیووقوف بنانے میں بھی مصروف ہیں۔ اب اس سبسڈی کو ختم کر کے اس خطے کی حکومت کو بھی ملک کی دیگر تقسیم کار کمپنیوں کے نرخوں پر ہی بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ بھی یکطرفہ طور پر کر دیا گیا ہے۔ یوں ایک بالکل سادہ سے عمل کو پیچیدہ ترین بنا کر 100 ارب روپے سے زائد کی پہلے لوٹ کر لی گئی اور مزید اربوں روپے شہریوں کی جیبوں سے نکالنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔

صارفین کیلئے نرخ کبھی کم نہ ہوئے

ایک اور المیہ یہ ہے کہ 2003ء سے 2023ء تک کے 20 سالوں میں 2.59 روپے کے حساب سے بجلی خریدنے والی مقامی حکومت نے شہریوں کو ایک روپے کا ریلیف دینے کی بجائے پورے پاکستان میں نافذ العمل نیپرا کے سلیب وائز ٹیرف کے مطابق ہی بلنگ کی ہے اور 5 ارب روپے سالانہ کی بجلی خرید کر شہریوں کو 20 ارب سے زائد میں فروخت کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ٹیکسوں کی مد میں بھی 6 سے 7 ارب روپے سالانہ جمع کئے جاتے رہے ہیں۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں گزشتہ 8 سال کے دوران 13 ارب روپے الگ سے جمع کئے گئے ہیں۔

اس طرح اس خطے کے شہریوں کو قیمتی اراضی، مکانات، کاروبار اور اجداد کی قبریں ڈیموں کے پانی تلے ڈبونے کے باوجود کسی قسم کا کوئی ریلیف کبھی نہیں مل سکا۔ مقامی حکمران اشرافیہ اور پاکستان کے حکمران ان قربانیوں سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔

محکمہ برقیات کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ سے پونے دو ارب روپے بلات کی مد میں وصول کرتی ہے، جبکہ بلات ماہانہ تین ارب روپے سے زائد کے جاری کئے جاتے ہیں۔ یوں 40 فیصد سے زائد بجلی چوری، بلات کی عدم وصولی اور لائن لاسز (ٹرانسمیشن کے دوران بوسیدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہونے والے نقصانات) کی مد میں ظاہر کیا جاتا ہے۔

حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو کچھ’نو گو ایریاز‘ قرار دیئے گئے علاقوں، محکمہ کے اندر ہونے والی بلات کے نام کی کرپشن اور ٹرانسمیشن لائنوں کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات ہوتے ہیں، جبکہ اکثریتی نقصانات سرکاری اداروں، حکمران اشرافیہ کے نمائندوں اور بیوروکریٹوں کی جانب سے بلات کی عدم ادائیگی کی صورت ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنی اس لوٹ مار کو بھی عام صارفین کی چوری کا نام دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا جاتا ہے۔

کرپشن اور چوری میں حکمرانوں کا کردار

محکمہ برقیات اس خطے کا سب سے زیادہ ریونیو پیدا کرنے والا محکمہ ہونے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور چور بازاری کیلئے بھی سب سے اہم محکمہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برقیات کی وزارت کو تعمیرات عامہ، صحت اور جنگلات کے ساتھ اہم ترین وزارت سمجھا جاتا ہے۔

بجلی کی تاروں، کھمبوں اور میٹروں کی خرید اور غیر قانونی فروخت کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ٹرانسفارمرز بھی فروخت کئے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے بعد خیرات میں آنے والے میٹر صارفین کو قیمتاً فروخت کرنے کے علاوہ ٹرکوں کے حساب سے دیگر قیمتی برقی آلات کو بیرون ریاست فروخت کئے جانے کے متعدد سکینڈل منظر عام پر آچکے ہیں۔

کرپشن کرنے والے افسران کے خلاف آواز اٹھانے والے غیر جریدہ ملازمین کی تنظیموں کے عہدیداران کو جبری طور پر ملازمتوں سے برطرف کرنے کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔

بلات کیلئے نیا سافٹ ویئر

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے اس فیصلہ سے قبل ہی محکمہ برقیات نے بلات جاری کرنے کیلئے کسی نئی کمپنی کو ٹھیکہ الاٹ کیا ہے۔ جس کی بابت زبانی معلومات تو فراہم کی جاتی ہے کہ وہ کمپنی لاہور کی ہے اور وہیں سے بلات تیار ہوتے ہیں۔ تاہم اس کمپنی کو الاٹ ہونے والے ٹھیکہ اور معاہدہ کی بابت کوئی بھی دستاویز فراہم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔

نئی کمپنی کی جانب سے لوڈ کی بنیاد پر بلات جاری کرنے کا سلسلہ گزشتہ دو ماہ سے شروع ہو اہے۔ اس نئے اقدام کے بعد صارفین کے بلات میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ جن مکانات میں اب کوئی رہتا نہیں ہے، بجلی کا کنکشن تو لگا ہے، لیکن انہیں ’ڈور لاک‘ قرار دلوایا گیا ہے، ان مکانات کے بھی بجلی کے بلات 70 یونٹ سے زائد کے جاری کئے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ لوڈ کی بنیاد پر بھی ایک ہی جتنی یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلات میں بھی ایک بڑا فرق آ رہا ہے۔ تاہم اس نئے ٹیرف کی تفصیلات فراہم کرنے کی بجائے صارفین کو کہا جاتا ہے کہ بلنگ کا مرکزی نظام قائم ہو گیا ہے، اس بابت محکمہ کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔ کسی کا بل اگر غلط آیا ہے تو اسے درست کروانے کیلئے لاہور جانا پڑے گا۔

یوں حکومت پاکستان کی جانب سے سستی بجلی فراہم کرنے کے معاہدے سے دستبردار ہونے اور اسے سبسڈی سے دستبرداری قرار دینے کے معاملے پر اس خطے کا مقدمہ لڑنے کی بجائے مقامی حکومت نے وہ بوجھ بھی صارفین پر ڈالنے کیلئے پہلے سے ہی ٹیرف میں تبدیلی کی صورت انتظام کر لیا ہے، تاکہ حکومت کی آمدن پر کوئی فرق نہ پڑے۔

حل کیا ہے؟

کسی بھی خطے کے وسائل پر پہلا حق اس خطے میں بسنے والے شہریوں کا ہوتا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کی فیڈریشن کا آئینی حصہ نہیں ہے۔ اس لئے اس خطے کے پاکستان کی فیڈریشن کے ساتھ تعلق کو صوبوں کی طرز پر قائم کرنے اور دیکھنے کا عمل ہی غلط ہے۔ اس خطے سے 3 ہزارمیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے اور مزید منصوبہ جات تعمیر ہونے کی صورت یہ پیداوار 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس خطے کی بجلی کی کل ضرورت 350 سے 400 میگا واٹ کے درمیان ہے۔

اس خطے سے پیدا ہونے والی بجلی حکومت پاکستان کو فراہم کرنے کیلئے شفاف معاہدہ جات طے کئے جانے چاہئیں، تاکہ حاصل ہونے والی آمدن سے اس خطے کے شہریوں کے روزگار، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے مسائل کو حل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔

اس خطے کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق بجلی ریاستی گرڈ قائم کر کے وہاں رکھی جائے اور مقامی حکومت بجلی کی ترسیل اور انتظام پر آنے والے اخراجات کے مطابق اوسط قیمت مقرر کرے۔ اس طرح 100 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کئے جانے کے اقدامات کئے جائیں۔ اسطرح لوڈ شیڈنگ کا بھی مکمل خاتمہ ممکن ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔