خبریں/تبصرے

ڈونلڈ ٹرمپ پر مالی بد دیانتی کے مقدمے کا آغاز ہو گیا!

قیصر عباس

نیویارک (جدوجہد رپورٹ) نیو یارک کے ڈسٹرکٹ کورٹ نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈٹرمپ پر کاروباری مدوں میں غلط بیانی کے الزامات عائد کرکے عدالتی کاروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ پچھلے ہفتے ان پر فرد جرم عائدکرتے ہوئے عدالت نے انہیں حاضر ہونے کا حکم دیاتھا جس کی پیروی کرتے ہوئے ٹرمپ اور ان کے وکلانے 4 اپریل کو عدالت میں حاضر ہوکر عائد کئے گئے الزامات کی تفصیل سنی۔

سابق صدر نے، جو آئندہ صدارتی انتخابا ت کی مہم شروع کر رہے ہیں، الزامات سے انکار کرتے ہوئے انہیں سیاسی پروپیگنڈہ کا حصہ قرار دیا ہے۔ عدالت میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق سابق صدر پر کاروباری گوشواروں میں غلط بیانی کے 34 الزامات لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کو بظاہر ”قانونی خدمات“ کے عوض ایک بھاری رقم اداکی جو دراصل ایک پورن ماڈل کو ٹرمپ کے ساتھ ناجائز تعلقات پر خامو ش رہنے پردی گئی تھی۔ مائیکل کوہن کو سابق صدر نے وکلا کی ٹیم سے نکال دیا تھاجو اب وعدہ معاف گواہ کے طورپران کے خلاف ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔

امریکی ریاست نیویارک میں مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ (Alvin Bragg) نے الزامات عائدکرتے ہوئے اپنے بیان میں کہاکہ:

”ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلسل نیویارک کے کاروباری گوشواروں میں مجرمانہ غلط بیانی جاری رکھی تاکہ 2016ء کے صدارتی انتخابات کے دوران ان کے کردار کے بارے میں منفی خبروں پر قابو پایا جا سکے۔“

ان کے مطابق سابق صدر پر عائد کئے گئے الزامات ریاستی اور فیڈرل انتخابی قوانین اور ممکنہ طور پر نیو یارک ریاست کے انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو مجرمانہ کاروائیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

ٹرمپ نے اسی دن فلوریڈا میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بے بنیاد الزامات میں پھنساکربدنام کیا جارہاہے تاکہ آنے والے انتخابات میں ان کی کردار کشی کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میرے مخالفین بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ الزامات بالکل غلط ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے تذلیل ہے اور دنیا آج ہم پر ہنس رہی ہے۔“

ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس مقدمے کے علاوہ بھی کئی تحقیقات جاری ہیں جو ان کی صدارتی مہم پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں، 6 جنوری 2021ء کو واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت، کیپٹل ہل پر حملے کے لئے اپنے حامیوں کو اکسانے اور اہم صدارتی دستاویزات سرکار سے چھپانے کے سنگین الزامات پر بھی ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جا سکتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی کاروائی کا اگلا مرحلہ انتہائی اہم ہوگاکیونکہ ان دفعات پر الزامات ثابت کرنا مشکل بھی ہو سکتا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگرچہ ان قانونی اقدامات سے آنے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حامیوں اور ان کی ریپبلکن پارٹی کے ووٹوں پر اثر نہیں پڑے گا لیکن ان آزاد ووٹروں پر اثر پڑ سکتا ہے جن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔