لاہور (جدوجہد رپورٹ) آسٹریا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی او) کی انٹرا پارٹی انتخابات میں سخت گیر مہاجر مخالف امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایک مارکسسٹ اینڈریاس بیبلر انتخابات میں کامیاب ہو کر ایس پی او کے نئے سربراہ منتخب ہو گئے ہیں۔
’جیکوبنز‘ کے مطابق اینڈریاس بیبلر کا مقابلہ پناہ گزین مخالف سخت گیر دائیں بازو کے رہنما ہانس پیٹر ڈوسکوزیل سے تھا۔ ڈوسکوزیل نے پارٹی کے موجودہ رہنما پامیلا رینڈی واگنر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں انتخاب کے آخری راؤنڈ سے باہر کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
فائنل راؤنڈ میں انکا مقابلہ ایک چھوٹے سے شہر کے میئر اور تجربہ کار بائیں بازو کے کارکن اینڈریاس بیبلر سے تھا۔ بیبلر نے انتہائی معمولی 0.1 فیصد کے فرق سے رینڈی واگنر کو شکست دے کر فائنل راؤنڈ تک رسائی حاصل کی تھی۔
فائنل راؤنڈ میں ووٹوں کی گنتی کے بعد رزلٹ میں گڑ بڑ کے نتیجے میں ابتدائی طور پر ڈوسکوزیل کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ تاہم ایک صحافی کی نشاندہی کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے نتائج اوپر نیچے ہو گئے تھے۔ تاہم الیکٹورل کمشنر نے دوبارہ گنتی کے بعد بیبلر کی جیت کا اعلان کر دیا۔ اس طرح وہ پارٹی کے نئے سربراہ کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔
بیبلر ویانا کے ایک قصبے موڈلنگ میں ایک محنت کش خاندان میں پیدا ہوئے۔ 16 سال کی عمر میں انہوں نے سوشلسٹ یوتھ آف آسٹریا (ایس جے او) میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ایک سوشلسٹ، اینٹی فاشسٹ، بین الاقوامی نوجوان تنظیم ہے، جس کا ایس پی او سے بھی قریبی تعلق ہے۔ جلد ہی بیبلر اس گروپ کے بین الاقوامی سیکشن کے نائب صدر بن گئے تھے۔
1995ء سے وہ لوئر آسٹریا کی لوکل کونسل کے رکن رہے ہیں۔ 2014ء میں ٹریسکر چن شہر کے میئر بنے۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کیلئے بھرپور آواز اٹھائی اور حکومت پرشدید تنقید کرنے کے علاوہ پناہ گزینوں کو انسانی رہائش فراہم کرنے کی درخواست کی۔
انٹرا پارٹی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بارہا یہ اعلان کیا کہ وہ مارکسسٹ ہیں اور جب سے یوتھ آرگنائزیشن میں ہیں، انہی دنوں سے مارکسسٹ ہیں۔
تاہم بیبلر کا اصل امتحان اب شروع ہو گا۔ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، قدامت پسند آسٹرین پیپلزپارٹی سمیت دیگر کے ممکنہ اتحاد کی وجہ سے بیبلر کے اقتدار کا راستہ کافی مشکل نظر آرہا ہے۔ بیبلر کی پارٹی حمایت کے علاوہ متبادل پروگرام پر بھی اس بات کا انحصار ہو گا کہ وہ عوام میں کتنی پذیرائی حاصل کر پاتے ہیں۔