خبریں/تبصرے

تیتری نوٹ: خونی لکیر پر جاری خون کی ہولی

ارسلان شانی

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے پونچھ سیکٹر پر تیتری نوٹ کے مقام پر ایک بار پھر بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ کا واقع پیش آیا ہے۔ ہفتے کے روز دن کے اوقات میں تیتری نوٹ سیکٹر پر بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں مقامی شہری ہلاک ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق دن ساڑھے 11 بجے بیلہ کے مقامی شہری مال مویشی چرا رہے تھے، اسی دوران فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں دو شہری ہلاک ہوئے جبکہ ایک شہری شدید زخمی ہے۔ واقعے کے بعد مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشوں کو اٹھا لایا جبکہ زخمی شہری کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہجیرہ میں منتقل کیا گیا، جس کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ یوں سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی اور بھارتی افواج کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے نزدیک بسنے والے شہریوں کا قتل عام جاری ہے۔

تیتری نوٹ بیلہ کے اسی مقام پر گزشتہ دنوں بھارتی فوج کہ جانب سے پیش قدمی کی گئی اور زیر تذکرہ مقام کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے مقامی آبادی کو ریت کی نکاسی سے روکا اور ان کے مویشی زبردستی ساتھ لے گئے تھے۔ ریت کی نکاسی اور جانوروں کی افزائش اس علاقے کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش ہے۔ یوں عوام کو تباہ کرنے کی ہر ایک دہشتگردانہ کارروائی جاری ہے۔

اس واقعہ نے جہاں دونوں طرف کی قاتل افواج کے چہرے کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے، وہیں اس واقعہ نے خطہ جموں کشمیر میں بسنے والی عوام کی زندگیوں کو اس غلامی سے نجات دلانے کے سوال کو سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ بھارتی ہندو انتہا پسند وزیراعظم نے 22 سے 24 مئی تک جی 20 رکن ممالک ٹورزم ورکنگ گروپ کا اجلاس جھیل ڈل کے کنارے پر منعقد کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ جموں کشمیر کو ہم ترقی کا راستہ فراہم کریں گے۔ ہم نے اس کانفرنس کے موقع پر ہمارا موقف یہ تھا کہ یہ رجعتی اکھنڈ بھارت کے نعرے کے ذریعے مظلوم اقوام پر اپنی دسترس مظبوط کرنا چاہتا ہے، تاکہ منظم طریقے سے جبر کی راہ ہموار کر سکے۔ دوسری طرف سامراجی سرمایہ داروں اور بھارتی سرمایہ داروں کے لئے لوٹ مار کی راہ ہموار کر سکے، چونکہ بھارت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر چکا ہے۔ فائرنگ کا یہ واقع مودی سرکار کے سارے کردار کو واضح کرنے کے لیے آئینے کا کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں نے ہر دور میں داخلی تضادات کو دبانے کے لیے جموں کشمیر کے قومی سوال کو بارڈر پر خون کی ہولی کھیل کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیاہے۔

اس خطے میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً 15 لاکھ نوجوان بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں زرمبادلہ کے ذخائر بھیجتے ہیں جن پر اس نام نہاد’آزاد کشمیر‘کے حکمران اپنی عیاشیوں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ سب سے آسان ہدف گلف ممالک ہوتے ہیں، لیکن اگر وہاں اپنی سستی محنت بیچنے والوں کی زندگیوں میں مشکلات کو دیکھیں،تو وہ غیر انسانی ماحول میں رہتے ہیں۔ تین تین منزلہ چارپائیوں پر مشتمل سیکڑوں افراد کی رہائش گاہ، اجتماعی کچن، باتھ روم استعمال کرنے کے لیے لائنوں میں لگنا اور پھر 12 سے14 گھنٹے مسلسل کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں نیند پوری نہیں ہوتی، جس وجہ سے ہزاروں بیماریوں سے لاحق ہو کر انسان واپس لوٹتا ہے۔ دن بھر پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتے ہیں، کیونکہ کام کے دوران کھانا تیار کرنے کیلئے رہائشی کیمپ جانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ ایسی ہزاروں سختیاں جھیل کر انسان اپنے خاندان کی کفالت کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ گلف کے ان غیر انسانی حالات کو روزگار کیلئے قبول کرنے کی بجائے نوجوان یورپ اور امریکہ پہنچنے کی کوشش کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ غیر قانونی راستوں کا انتخاب ہی زیادہ تر کیا جاتا ہے۔ تاہم غیر قانونی سفر کا طریقہ اختیار کرنے پر کئی ملکوں کی سرحدیں پار کرتے ہوئے ان دیکھی گولیوں کا شکار بننے سمیت، سمندری، پہاڑی، برفانی اور صحرائی راستوں میں بھوک، پیاس، حادثات وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس طرح حالیہ دنوں میں یونان سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر کشتی کے الٹنے سے تقریباً 600 سے زاہد افراد سمند کی موجوں کی نظر ہو گئے۔ وہ غیر قانونی طور پر بھاری رقم ادا کر کے بہتر زندگی کے خواب آنکھوں میں لئے یورپ جانا چاہتے تھے۔ اس تکلیف دہ سفر سے گزر کر جو لوگ وہاں تک پہنچ بھی جاتے ہیں،انہیں بھی انسانی بنیادوں پر ریلیف حاصل کرنے کے مقدمات میں سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس ساری صورتحال کو اگر مدنظر رکھا جائے، تو اس خطے کی حکمران اشرافیہ تقریباً 76 سالوں سے روزگار، تعلیم، علاج اور بنیادی انسانی ضروریات فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ اب اگر یہاں کے غریب و نادار لوگ اپنی زمینوں کے ساتھ منسلک ہو کر اپنی زندگی کا گزر بسر کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، تو پاک بھارت گٹھ جوڑ کے ذریعے ان سے زمینوں کو چھین لینے کی کوشش غریبوں کے منہ سے نوالہ بھی چھیننے کے برابر ہے۔

اس سارے ظلم کے خلاف جب عوام علاقہ نے ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے بھارتی افواج کے قبضے کے خلاف پرامن جدوجہد کرنے کی ٹھانی تو ریاست نے عوام علاقہ کو احتجاج کرنے سے روکنے کے لیے ہتھکنڈے اپنانا شروع کر دیئے۔ مسجدوں سے اعلان کروائے گئے کہ دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا ہے، عوام احتجاج کا حصہ نہ بنیں۔ پورے تیتری نوٹ میں فوج تعینات کر دی گئی۔ مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لیے ویگو ڈالے دوڑانے، اسلحہ لہرانے، سمیت ڈراؤن سے ویڈیوز شوٹ کرنے جیسے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ اس کے باوجود پورا دن عوام دھرنے میں بیٹھی رہی اور اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ مذاکرات میں ان کے مطالبات تسلیم ہونے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔ تاہم یہ محض اوپر والی سرکار کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ایک اقدام تھا، اس کا مسائل کے حل سے کوئی تعلق نہ تھا۔

اب یہ حکمران بڑا غمگین انداز بنا کر مرنے والوں کے دکھ میں مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے اور ان معصوم لاشوں پر سیاست کریں گے۔ ساری توجہ انڈیا کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہوئے ان تحریکوں کو زائل کرنے کی کوشش کریں گے، جومظفرآباد میں بیٹھے حکمران طبقے کے خلاف منظم ہو رہی ہیں۔ آٹے پر سبسڈی، مقامی گرڈ سٹیشن کے قیام، بیروزگاری، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی مراعات میں کمی اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کے لیے دو ماہ سے احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔

ہسپتال کی عدم دستیابی، ایمبولنس کا نہ ہونا، انفراسٹرکچر کا بوسیدہ ہونا اور فوج کا مقامی آبادی کو تقریباً دو گھنٹے تک زخمیوں کو نہ اٹھانے دینا ہی زخمیوں کو لاشوں میں بدلنے کا سبب بنا ہے۔ یہ تمام مسائل حل کرنا ان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے اس کے ذمہ دار مظفرآباد میں بیٹھے حکمران اور ان کے حاشیہ بردار ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوانوں کی بیرون ریاست بیچی جانے والی محنت سے حاصل ہونے والے محصولات کی بنیاد پر اپنی عیاشیوں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ یہ عیاشیاں کرتے ہیں اور عوام بھوکی مرتی ہے۔

ہمیں مل کر اس سرمائے کے نظام کے خلاف جدوجہد تیر تر کرنی ہو گی، جس نظام کے محافظوں کی عوامی مسائل کے حل پر عدم توجہی کی وجہ سے آج خونی لکیر پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts