لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت میں G-20 سربراہی اجلاس سے قبل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور تمیر نو ویمن ورکرز تنظیم کی جانب سے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر جی 20 ممالک کو عالمی جنوب کے ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کے خلاف نعرے درج تھے۔ احتجاجی مظاہرین نے دنیا کی20 بڑی معیشتوں کیخلاف ماحولیاتی تباہی پھیلانے پر کاروائی سمیت عوامی فنڈز کو فوسل فیول سے دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں 100 فیصد قابل تجدید توانائی کو تیز، منصفانہ اور مساوی طور پر منتقل کیا جائے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جی 20 کا فریم ورک ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جس سے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے اندر قرضوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی 20 کا مشترکہ فریم ورک طویل مدتی، پائیدار اور تبدیلی کے حل کے علاوہ قرضوں کے بحران سے نمٹنے میں ناکام ہوا ہے۔
فاروق طارق نےکہا پاکستان کے قرضہ جات ختم کرو، سیلاب اور بارشوں سے تباھی کے متاثرین کی بحالی کے لئے 40 ارب ڈالر پاکستان کو دینے کا اعلان کرو انہوں نے کہا کہ سری لنکا، پاکستان اور شدید قرضوں کے بوجھ تلے دبے دیگر ممالک جی 20 کے ناقص قرضوں سے نجات کے طریقہ کار کی تائید کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا جی 20 موسمیاتی بحرانوں کے لئے مزید گھناؤنے قرض کو فروغ دیتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ قرضہ جات کی واپسی عوامی اخراجات کے لئے پہلے سے ہی کم وسائل کو کھا جاتی ہے۔ قرضوں پر انحصار کے گھناؤنے چکر کی وجہ سے ان ممالک کو فوسل ایندھن پر مسلسل انحصار کرنے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کے کنٹری پروگرام کے سربراہ ضیغم عباس نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جی 20 جیسی بڑی معیشتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کلائمیٹ فنانس کی ادائیگی کریں کیونکہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی جنوب میں ماحولیاتی تباہی بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اخراج، مساوات اور منصفانہ حصص کی بنیاد پر عالمی جنوب کو تلافی کی صورت موسمیاتی مالیات کی ضرورت ہے تاکہ یہ ممالک موسمیاتی بحران سے ہونے والے نقصان کی ادائیگی کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ساری تباہی کی ادائیگی کی ذمہ داری عالمی شمالی ممالک پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی ترقی اور منافع کے نہ ختم ہونے والے لالچ نے ہمارے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔
جی 20 کی بڑی معیشتوں کے سربراہی اجلاس کے پیش نظر آج چھ ایشیائی ممالک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے جبکہ مکاتی، جکارتہ، ڈھاکہ، کھٹمنڈو، کراچی، لاہور اور کولمبو میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ دوسری جانب بھارت میں موجود گروپس جی 20 سمٹ کے آغاز کے وقت کل 9 ستمبر کو کئی شہروں اور ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے کرنے والے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سری لنکا، پاکستان اور شدید قرضوں کے بوجھ تلے دبے دیگر ممالک جی 20 کے ناقص قرضوں سے نجات کے طریقہ کار کی تائید کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا جی 20 موسمیاتی بحرانوں کے لئے مزید گھناؤنے قرض کو فروغ دیتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ قرضہ جات کی واپسی عوامی اخراجات کے لئے پہلے سے ہی کم وسائل کو کھا جاتی ہے۔ قرضوں پر انحصار کے گھناؤنے چکر کی وجہ سے ان ممالک کو فوسل ایندھن پر مسلسل انحصار کرنے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کے کنٹری پروگرام کے سربراہ ضیغم عباس نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جی 20 جیسی بڑی معیشتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کلائمیٹ فنانس کی ادائیگی کریں کیونکہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی جنوب میں ماحولیاتی تباہی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخراج، مساوات اور منصفانہ حصص کی بنیاد پر عالمی جنوب کو تلافی کی صورت موسمیاتی مالیات کی ضرورت ہے تاکہ یہ ممالک موسمیاتی بحران سے ہونے والے نقصان کی ادائیگی کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ساری تباہی کی ادائیگی کی ذمہ داری عالمی شمالی ممالک پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی ترقی اور منافع کے نہ ختم ہونے والے لالچ نے ہمارے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔
جی 20 کی بڑی معیشتوں کے سربراہی اجلاس کے پیش نظر آج چھ ایشیائی ممالک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے جبکہ مکاتی، جکارتہ، ڈھاکہ، کھٹمنڈو، کراچی، لاہور اور کولمبو میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ دوسری جانب بھارت میں موجود گروپس جی 20 سمٹ کے آغاز کے وقت کل 9 ستمبر کو کئی شہروں اور ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے کرنے والے ہیں۔