پاکستان

اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر کی سبسڈی کیسے ہتھیاتی ہے؟

فاروق سلہریا

آئے دن فیس بک یا ٹوئٹر پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بارے مڈل کلاس افراد پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں۔ نجی محفلوں میں بھی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ یوں اربوں کی خیرات دینے سے بہتر ہے کہ حکومت یہ رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ کرے تا کہ نوکریاں پیدا ہوں۔

پاکستان میں کل ملا کر لگ بھگ دس فیصد افراد سوشل سکیورٹی کے مختلف پروگراموں سے (جن میں بیت المال اور زکوۃ سے لے کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پنشن وغیرہ شامل ہیں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اوسطا َحکومتیں جی ڈی پی کا 11 فیصد سوشل سیکورٹی پر خرچ کرتی ہیں۔ پاکستان میں یہ اوسط 2 فیصد کے قریب ہے۔ افغانستان کو چھوڑ کر، جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان دوسرے ممالک کے مقابلے پر پیچھے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل سکیورٹی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ الٹا ہو یہ رہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے نوے لاکھ شہریوں کو (جنہیں تین مہینے بعد تین چار ہزار ملتے ہیں) تو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے مگر سیٹھ لوگ لگ بھگ 3 کھرب روپے کی سبسڈی لے رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اس سال کے وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 450 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سالانہ لگ بھگ 600 ارب روپے سوشل سکیورٹی پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ طبقاتی ظلم جس پر شور مچانے کی ضرورت ہے نہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس سے مستفید ہونے والے شہری ریاست سے ملنے والے چند ہزار روپے اسی ملک میں خرچ کرتے ہیں اور ملکی معیشیت کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن اشرافیہ 3 کھرب روپے کی سبسڈی چوری کر کے دولت (اور بچے) بیرون ملک شفٹ کر دیتی ہے۔ معروف معیشت دان حفیظ پاشا نے 2021ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’چارٹر آف اکانومی‘ میں بتایا ہے کہ اشرافیہ کے کس حصے کو کتنی سبسڈی ملتی ہے۔ اس سے پہلے کہ چوری کے طریقہ کار پر بات کی جائے، پہلے ذرا دیکھتے ہیں کہ کونسا طبقہ کتنی چوری کر رہا ہے:

یہ چوری کیسے کی جاتی ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2020-21ء میں کارپوریٹ منافع پر ٹیکس 35 فیصد سے کم کر کے 28 فیصد کر دیا گیا اور یو ں 84 ارب روپے کا نقصان ملکی خزانے کو پہنچایا گیا۔

عمومی طور پر جاگیردار طبقے کی بات کی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ گو مندرجہ بالا جدول سے پتہ چلتا ہے کہ جاگیردار کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں مگر چوری کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل جدول میں دی گئی تفصیلات دیکھتے ہیں (یہ تفصیلات2020-21ء کے مالی سال بارے ہیں):

(یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ بعض چھوٹے کسان بھی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر زیادہ فائدہ بڑے زمینداروں کو ہوتا ہے)۔

اب ذرا دیکھتے ہیں کہ نان فنانشل یعنی بنکنگ سیکٹر وغیرہ نکال کر، اشرافیہ نے 2020-21ء کے مالی سال میں کتنا فائدہ اٹھایا۔ ملاحظہ کیجئے مندرجہ ذیل جدول:

گو مندرجہ بالا اعداد و شمار کا تعلق صرف ایک مالی سال سے ہے مگر یہ واردات ہر سال دہرائی جاتی ہے۔ پاکستانی جی ڈی پی کا لگ بھگ 3 فیصد اشرافیہ کی ان مراعات پر ضائع کیا جاتا ہے۔ رہا یہ پراپیگنڈہ کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے صرف اشرافیہ بارے درست ہے۔

عام شہریوں سے ماچس کی ڈبیا سے لے کر پانی، ڈیزل، بجلی کے بل اور روٹی پر بھی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ 70 فیصد ٹیکس آمدن کی بجائے بلا واسطہ لیا جاتا ہے۔

اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پٹرول اور بجلی پانی پر ٹیکس تو سب پر برابر لگتا ہے۔ امیربھی تو یہ سارے ٹیکس دیتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ملک ریاض یا جہانگیر ترین، زرداری یا شریف، جنرل اور جاگیردار کی جس قدر اربوں کے لحاظ سے آمدن ہوتی ہے اُس سے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ روٹی بیس روپے کی ہے یا بارہ سو کی۔ پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ والا البتہ تیس روپے کی روٹی خریدتے ہوئے دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

غریب کا پیٹ روٹی کے لئے ترس رہا ہے اور امیر لوگ کھانا کھانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لئے پریشان رہتے ہیں۔

رہے وہ محب وطن جن کو شکوہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے صنعت کاری رکی ہوئی ہے، انہیں چاہئے کہ اشرافیہ کے 3 کھرب ٹیکس چوری کا مدعا اٹھائیں جو صنعتی ترقی، نوکریاں پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بلا شبہ دفاعی بجٹ اور غیر ملکی قرضے جن سے اشرافیہ ہی مستفید ہوتی ہے، اس سے بھی بڑا مسئلہ ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔