پاکستان

جلد باز قوم: اتنی جلدی کہ ٹرین کے نیچے آنے پر بھی تیار ہیں

حارث قدیر

اس دو منٹ کی ویڈیو یہ واضح کر رہی ہے کہ پاکستانی سماج کس قدر ثقافتی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف یہی ویڈیو ریاست کی تاریخی نااہلی اور نظام کی متروکیت کا بھی واضح اعلان کر رہی ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مرکزی شاہراہ کے درمیان سے ریل گاڑی گزرنے کی کوشش کر رہی ہے اور منتظر ہے کہ گاڑیاں رکیں گی اور ریل گاڑی کو گزرنے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے مسافر دو منٹ رک کر ریل گاڑی کو گزرنے کا موقع دینے کی بجائے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے ریلوے ٹریک کو پھلانگتے جا رہے ہیں۔

اس معاشرے میں ثقافتی گراؤنٹ کی انتہا یہ ہے کہ لوگ تیزی سے گزرنے کیلئے ٹرین کے نیچے آنے کیلئے تیار ہیں، لیکن مہم جوئی کی حد تک اس تیز رفتاری کی حد یہ ہے کہ شاید چند سو میٹر بعد ان میں سے کئی ایک نے کافی زیادہ وقت کیلئے رکنا ہے۔ گھر پہنچ کر بھی انہوں نے شاید کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا۔ پاکستانی معاشرہ وقت پر کوئی بھی ایونٹ منعقد نہ کرپانے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہر تقریب کا مہمان ہمیشہ دیر سے پہنچتا ہے، ہر تقریب تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے نچلی سطح تک کا ہر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ شادی کی تقریب میں دولہا بھی ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتا ہے۔ تاہم سڑک پر تیزی اس طور نظر آتی ہے کہ شاید اس قوم سے زیادہ مصروف دنیا کی کوئی اور قوم نہیں ہے۔

تاہم اس کیفیت کی وجہ لوگوں کی جینیاتی خرابی نہیں ہے، یہی لوگ دنیا کے دیگر خطوں میں عادات و اطوار تبدیل کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی قصور وار ایک متروک ریاستی اور معاشی ڈھانچہ ہے، جس پر متروک سماجی اور ثقافتی اقدار تعمیر ہوچکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں نہ تو تعلیمی ڈھانچہ اس طرح سے استوار کیا جا سکا ہے کہ جس میں بنیادی شہری اخلاقیات سے معاشرے کو روشناس کیا جا سکے۔ نہ ہی ایسی کوئی سماجی تنظیمیں پنپ سکی ہیں جو معاشرے میں موجود ان مسائل اور رویوں کی تبدیلی کیلئے شعور و آگاہی کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھا سکیں۔

یہ ویڈیو ریاست کی تاریخی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک مرکزی شاہراہ پر ریلوے پھاٹک بھی نہیں لگایا جا سکا، جس کے ذریعے سے ٹریفک کو روک کر ریل گاڑی کو گزارہ جائے اور انسانی زندگیوں کو قدرے محفوظ بنانے کا اقدام کیا جا سکے۔ یہ ریاست اور اسکی معیشت اتنی متروک ہو چکی ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی حل کرنے سے قاصر ہے۔ ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں بیسیوں دیگر مسائل پیدا کر دیئے جاتے ہیں، اس طرح مسائل کا ایک انبھار ناقابل حل صورتحال تک پہنچ چکا ہے۔

جہاں وقت کی پابندی ضروری ہے، وہیں انسانی زندگیوں کے تحفظ کیلئے سڑک پر محفوظ سفر کیلئے احتیاطی تدابیر اور ٹریفک قوانین کی پابندی بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر شعوری بنیادوں پر اس سماج کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی ضروریات کا اسیر ہونے کی بجائے انسان کو حقیقی انسانی قدروں سے روشناس کروانے کیلئے آگے بڑھا جا سکے۔ اس نظام کی تبدیلی کیلئے وہ کردار ادا کیا جا سکے، جس کی اس وقت ناگزیر ضرورت ہے۔ اس معاشرے میں اصلاحات کی گنجائش اب تقریباً ناممکن ہو چکی ہے، اس معاشرے کو یکسر تبدیل کرنے اور نئے معاشی ڈھانچے کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے، جو حقیقی انسانی سماجی، سیاسی اور ثقافتی قدروں کو پروان چڑھانے کا موجب بن سکے۔

(نوٹ: درج بالا ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹویٹر) پر طاہر عمران میاں نامی صارف نے شیئر کی ہے، جسے سوشل میڈیاپرلوگ مسلسل شیئر کرتے جا رہے ہیں۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ کس شہر اور کس علاقے کی ویڈیو ہے۔)

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔