لاہور(جدوجہد رپورٹ)بھارت کے زیر انتظام لداخ میں ریاستی تشخص کی بحالی، 6thشیڈول میں شامل کئے جانے سمیت پارلیمانی نمائندگی اور دیگر مطالبات کے حصول کیلئے ہفتہ3فروری کو احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کے سلسلہ میں لداخ میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی، جبکہ دونوں اضلاع کارگل اور لیہہ میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کئے اور جلسے منعقد کئے۔
خطے میں مکمل ہڑتال اور احتجاج کی کال لیہہ اپیکس باڈی(ایل اے بی) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس(کے ڈی اے) نے دی تھی۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے 5اگست 2019کو آرٹیکل 370کو غیر فعال کئے جانے کے بعد لداخ کو الگ کر کے بھارت کی یونین ٹیریٹری (بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقہ) قرار دے دیا گیا تھا۔ ایل اے بی اور کے ڈی اے لداخ کے دونوں بڑے اضلاع میں مضبوط اتحادوں کی شکل میں ابھرے ہیں اور جموں کشمیر سے الگ کئے جانے کے بعد لداخ کے لوگوں کے خصوصی حقوق کے حصول کیلئے احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔
2019ء میں بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ تاہم جموں کشمیر کو اسمبلی اور ریاست کا درجہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ریاست کا درجہ بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم لداخ کو بغیر اسمبلی کے یونین ٹیریٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کیلئے ریاست کا درجہ بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو قبائلی درجہ دیا جائے اور بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول میں اس کو شامل کیا جائے۔ بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل علاقوں میں مقامی آبادی، زمینوں اور روزگار کے تحفظ کے علاوہ یونین کے اندر ملازمتوں اور تعلیم کیلئے کوٹہ بھی مختص کیا جاتا ہے۔ مظاہرین کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ لیہہ اور کارگل کے اضلاع کیلئے ایک ایک پارلیمانی نشست بھی کم از کم فراہم کی جائے۔
’دی وائر‘ کے مطابق ہڑتال دونوں اضلاع میں دیکھی گئی ہے اور تمام کاروباری سرگرمیاں معطل رہی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بھی دونوں اضلاع کے دور دراز علاقوں میں بھی بند رہی ہے۔ شدید سردی کے باوجود مظاہرین ایک بڑی تعداد میں ہفتے کی صبح لیہہ کے پولو گراؤنڈ میں جمع ہوئے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن میں مطالبات درج تھے۔ یہ 2019کے بعد اس خطے کا سب سے بڑا عوامی اجتماع تھا۔
احتجاج کی کال دینے والے دونوں گروپوں کے رہنماؤں کے میدان میں پہنچنے پر شدید نعروں کی گونج میں ان کا استقبال کیا گیا۔ ’بحال کرو، بحال کرو۔۔ جمہوریت بحال کرو‘ جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370کو غیر فعال کرنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت والی مرکزی حکومت نے لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اس وعدے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ 2019کے پارلیمانی انتخابات اور2020کے لیہہ ہل کونسل کے انتخابات کیلئے بی جے پی کے منشور میں بھی لداخ کو آئین تحفظ دینے اور چھٹے شیڈول میں شامل کرے کی وکالت کی گئی تھی۔ تاہم یہ اعلانات ابھی تک عملی جامہ نہیں پہن سکے ہیں۔
مقررین کا کہنا تھا کہ کان کنی کی صنعت میں لابیاں ہیں، جو لداخ کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ہم صرف اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جب تک ایسا ہو نہیں جاتا، ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ بعد ازاں مظاہرین نے لیہہ کے وسط میں واقع سینگے نمگیال چوک سے ڈپٹی کمشنر آفس تک مارچ کیا۔
کارگل ضلع میں بھی احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین ’نہیں چلے گی، نہیں چلے گی، نا انصافی نہیں چلے گی‘ اور ’لداخ کے قبائلی اسٹیٹس کو نافذ کرو‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین نے ’ہم ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں‘ کے عنوان کے حامل پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔
واضح رہے کہ 4دسمبر کو بھارت کی وزارت داخلہ کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے ایل اے بی اور کے ڈی اے کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا پہلا دور منعقد کیا تھا، تاہم یہ بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گیا۔ کمیٹی نے میٹنگ کے دوران لداخ کیلئے آئینی تحفظ پر تبادلہ خیال کیا، تاہم ایل اے بی اور کے ڈی اے اپنے چاروں مطالبات پر قائم رہے۔
اب اطلاعات ہیں کہ دونوں فریقین کے مابین بات چیت کا دوسرا دور19فروری کو دہلی میں ہونے جا رہا ہے۔