تاریخ

احمقوں کی سامراج مخالفت

طارق علی

(طارق علی کی کتاب’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘2023میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ درجن بھر زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا ایک باب قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔)

وائٹ ہاوس پہنچنے والے ڈیمو کریٹک صدر جمی کارٹر بارے کہا جاتا تھا وہ مشرق وسطیٰ میں طرفین پر یہ دباؤ ڈالنے کہ حق میں تھے کہ دونوں فلسطین بارے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ قبل اس کے کہ جمی کارٹر کوئی قدم اٹھاتے، مصر نے دنیا کو اپنے یک طرفہ فیصلے سے حیران کر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ انفرادی طور پر امن قائم کرنے کے لئے تیار ہے: نومبر 1977ء میں صدر سادات یروشلم پہنچے، سرعام اسرائیلی وزیراعظم میناچم بیگن سے معانقہ کیا اور امن معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ اسرائیل نے مصر کے مقبوضہ علاقے خالی کر دیئے، دونوں ملکوں نے سفارت کاروں کا تبادلہ کیا اور اس منظر کو دیکھ کر تو، وقتی طور پر ہی سہی، یوں لگا کہ باقی کے مسائل بھی اسی آسانی سے نپٹ جائیں گے۔ مصرکے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جو خبریں نشر کی گئیں ان پر جھوٹ کی ملمع کاری کی گئی تھی۔ اسرائیل نے تب بھی اور بعد میں بھی واضح کیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادی کاری کی حکمت عملی معطل کرے گا نہ روکے گا۔
سادات کی پسپائی کا دوہرا مقصد تھا۔ انفتاح(کھلا دروازہ) کہلانے والے اس عمل کا مقصد ایک تو ناصر اسٹ ماضی کے اہم عقائد سے سرکاری طور دامن چھڑانا تھا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ غیر جانبداری کے خاتمے اور مغرب کی گود میں واپسی اور انحصار کا علامتی اظہار تھا۔
اندرون ملک معاشرتی جغرافیے پر بھی انفتاح کے حیران کن نتائج مرتب ہوئے۔ ایک بڑے پبلک سیکٹر کی موجودگی میں لوگوں کی اکثریت کو خوراک، رہائش، صحت اور تعلیم کی سہولتیں کسی قدر میسر تھیں۔ یہ سہولتیں کافی تو شائد نہیں تھیں لیکن جو ہونے جا رہا تھا اس کی نسبت بہت بہتر تھیں۔ ناصر کے دور میں غریب امیر کا فرق نسبتاً کم تھا۔ اصل اعتراض بدعنوانی اور سیاسی جبر پر تھا۔ گزشتہ حکومت سے لوگوں کی دوری کی یہی دو وجوہات تھیں۔ سادات نے ملک کے سیاسی ڈھانچوں کی لبرلائز یشن کئے بغیر ملک کی نج کاری کا فیصلہ کیا۔ باالفاظ دیگر یہ جنس تنقید سے بالا تھی۔ مصری بایاں بازو اندر ہی اندر تلملا رہا تھا مگر اتنا کمزور اور شکستہ حال ہو چکا تھا کہ احتجاج کے قابل نہیں رہا تھا۔ سیکولر لبرل اس امید کے ساتھ اس نئی روش کی حمایت کرنے لگے کہ اس طرح جمہوریت آئے گی۔ ایسا لیکن نہیں ہوا۔ نج کاری اور غیر ملکی سرمائے کو موقع فراہم کرنے کے نتیجے میں جو طبقاتی تفریق پیدا ہوئی اس کی جھلک قبل از ناصر والے مصر کے سیاسی ڈھانچوں میں بھی نہیں ملتی۔ گزشتہ حکومت میں بھی سیاست پر پہرے تھے لیکن عرب سوشلسٹ یونین کے اندر واضح دھڑے بندی سے آبادی کی مختلف معاشرتی پرتوں کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اب تو اس کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا۔ اگر مخالفت ممکن تھی تو خفیہ طور پر۔
اگر کسی تنظیم کے پاس زیر زمیں کام کے تجربے کی بہتات تھی تو وہ اخوان المسلمین اور اس کی ریڈیکل شاخیں تھیں۔ وہ فوج میں گھس بیٹھ کر چکے تھے اور اب انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھر پور اور کھلے عام حکومت کی مخالفت کا اظہارکریں گے۔ انفتاح کے چار سال بعد، 6 اکتوبر 1981 ء کو مصر کے صدر فوجی سلامی لے رہے تھے کہ چار سپاہیوں نے اپنی بندوقیں بھر کر وی آئی پی چبوترے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، سادات ہلاک جب کہ وفد کے دیگر بہت سے افراد زخمی ہوگئے۔ طبقہ اشرافیہ نے سوگ منایا۔ قوم کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ ناصر کے جنازے سے اس منظر کا فرق بہت نمایاں تھا۔
قاتلوں کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔ سرکاری تقریبات میں مصر اندر گولہ بارود پر پابندی لگا دی گئی، اور یہ پابندی محض مصر اندر ہی نہیں لگی۔ لیکن وہ اندرونی و بیرونی وجوہات جن کے باعث اسلام پرست سرگرمیوں کا تیکھا احیاء ہوا تھا، وہ تو وہیں کی وہیں تھیں۔ سادات کی جگہ مبارک نے لے لی جنہوں نے اپنی کرم خوردہ آمریت کے تحفظ کے عوض سماجی و ثقافتی شعبوں میں مذہبی بنیاد پرستوں کو مراعات فراہم کیں۔یوں بنیاد پرستوں کو تقویت ملی اور ان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔ البتہ جس واقع نے پھر سے سیاسی— مذہبی جوش و خروش کو ہوا دی تھی وہ عرب دنیا سے باہر وقوع پذیر ہوا تھا۔
علامتی طبل جنگ تو 1971ء میں ہی بج چکا تھا جب لوگوں سے کٹے ہوئے، ملکی و غیر ملکی خوشامدیوں کے گھیرے میں بیٹھے، اندھی خوداعتمادی کے شکار ایک مغرور شہنشاہ نے سیسل بی دی مل٭ کا سوانگ بھرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سائرس اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے اور ’ایرانی بادشاہت‘ کے ڈھائی ہزار سال پورے ہونے پر سالگرہ کا اہتمام کرنا چاہتا تھا۔ باقی تمام باتوں کی طرح اس سالگرہ کے لئے جو تاریخ مقرر کی گئی وہ بھی مشکوک تھی۔ اس شاہی ضیافت کی وجہ بالکل واضح تھی: ’آریاؤں کے نور‘ کے جنم شاستری عدم تحفظ میں کمی، خود تعریف کے لیے شاہ ایران آریاؤں سے ناطہ جوڑتے، جس تاریخی جگہ کا ضیافت کے لئے انتخاب کیا گیا وہ تھی: قدیم فارس کا دارالحکومت پرسیپولس۔
مدعو کئے گئے اکثر مہمان شریک ہوئے۔ ایتھوپیا اور جاپان کے شہنشاہ ہیلے سیلاسی اور ہیروہیٹو، بینی لکس ممالک اور سیکنڈے نیویا کے کم ممتاز شہنشاہ، ان سے بھی کم ممتاز مراکش، اردن اور نیپال کے شہنشاہ، والیئ تخت برطانیہ چارلس ونڈسر اور ہاں ہر نوع کے سیاستدان۔ ان سیاستدانوں میں سپیرواگنیو (امریکی نائب صدر) بھی شامل تھے اور سویت صدر پوڈگورنی بھی جبکہ چینی پولٹ بیورو کے ایک سینیئر نمائندے نے بھی شرکت کی۔ اگر کسی یورپی سیاستدان نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ فرانسیسی رہنما پومپیدو تھے۔ شائد یہ پیرس میں مئی 68ء اندر سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا اثر تھا کہ انہیں اپنے عالمی ہم منصبوں کی نسبت مستقبل زیادہ واضح نظر آرہا تھا۔ یورپ اور امریکہ کی بے شمار علمی و فلمی شخصیات بھی موجود تھیں جن میں سے ایک برطانوی سیاسی فلسفی سر اسائیابرلن بھی تھے جن کے جانفزا کتابچے ’آزادی کے دو نظریات‘ ٭کو درباریوں نے خوب سراہا تھا اور یہ حال ہی میں تہران سے شائع ہوا تھا۔ اس عظیم انسان نے اس موقع پر تہران میں ایک لیکچر بھی دیا تھا۔ معاوضے کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔
میڈیا کے مطابق شرکاء خوب لطف اندوز ہوئے۔ کھانا اور شراب کی 25,000 بوتلیں پیرس سے منگوائی گئی تھیں۔ کھانے میں اگر کوئی مقامی چیز تھی تو وہ تھا ایرانی کاوئیر جو ایران کے حصے میں آنے والے بحیرہ کیسپین سے آیا تھا۔ دعوت پر 300 ملین ڈالر کا خرچہ آیا…… اس میں وہ ’اخراجات‘ بھی شامل ہوں گے جو دعوت میں شامل غیر سرکاری شخصیات پر ہوئے…… یہ رقم تیسری دنیا کے ایک ملک کو کئی ماہ تک خوراک فراہم کرنے کے لئے کافی تھی۔
اس تقریب کا نقطہ عروج بھی گھٹیاپن سے بھرپور تھا۔ مہمانوں نے فلڈ لائٹس کی روشنی میں سائرس کے مقبرے کے سامنے خلعت سے لدے پھندے مورتخت کے تخت نشین کو کھڑے دیکھا تو حیرت سے ان کے منہ کھلے رہ گئے۔ شاہ نے اسٹیج پر طاری ہو جانے والی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ جملہ دہرایا جس کی وہ ہزار بار مشق کر چکے تھے:
”سکون سے سوتے رہو سائرس! ہم جاگ رہے ہیں: (29)
امریکی جامعات کی بے لطف دنیا میں واپسی ہوئی تو یہ پرجوش مستشرقین کہتے پھر رہے تھے کہ شاہ کے جادوئی الفاظ کے بعد اچانک باد صحرا چلنے لگی۔ کچھ اور ہوائیں بھی پَر تول رہی تھیں جن کی طرف انہوں نے توجہ نہیں دی۔ ادھر شاہ مشرق و مغرب کے رہنماؤں سے داد و تحسین وصول کر رہے تھے ادھر ایک ایسا ایرانی مُلاں دوراندیش تنبیہہ کر رہا تھا جسے ایران سے باہر لوگ کم ہی جانتے تھے۔ عراق میں جلاوطن خمینی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے تھے:
کیا اسلام اور مسلمانوں کے مفادات سے غداری کرنے والے ایسے غدار حکمران کی حکومت پر تقریبات منعقد ہونی چاہئیں جو اسرائیل کو تیل فروخت کرتا ہے؟ شاہان ایران کے جرائم سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں ………… وہ جو ’نیک‘ ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، وہ بھی بدکار اور ظالم تھے۔ اسلام تو بادشاہت کا سرے سے مخالف ہے…… ایران بھر سے ہمیں رابطہ کر کے لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اسلامی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن سے غسل خانے تعمیر کر سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس غسل خانے تک موجودنہیں۔ وہ سنہرے وعدے کیا ہوئے، وہ جھوٹے دعوے کدھرگئے کہ ایران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہمقدم ترقی کر رہا ہے، کہ لوگ خوشحال اور مطمئن ہیں؟ اگر یہ حالیہ زیادتیاں جاری رہیں تو ہماری عاقبت تباہی کے سوا کچھ نہیں ……
ایران کے اندر، جہاں خمینی کو جانا بھی جاتا تھا اور ان سے خوف بھی کھایا جاتا تھا، یہ دیکھنے میں آیا کہ لب و لہجہ مختلف تھا۔ 1963ء میں اپنے گڑھ قم میں آیت اللہ ملاؤں اور مدرسوں میں ان کے غریب طلباء کو ’خون خور‘ کہے جانے پر سخت مشتعل ہوئے اور وہاں سے انہوں نے اپنے فاسق حکمران کو تنبیہہ جاری کی کہ وہ جھوٹے دوستوں سے خبردار رہے اور اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرے:
جناب شاہ! میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ باز رہیئے۔ عزیز جناب شاہ! میرا مشورہ ہے کہ آپ باز رہیے……میں نہیں چاہتا کہ لوگ اس روز شکر ادا کریں جس روز آپ کے غیر ملکی آقا آپ کو رخصت کریں۔ میں نہیں چاہتا آپ کا بھی وہی حال ہو جو آپ کے والد کا ہوا…… دوسری عالمی جنگ کے دوران سویت یونین، برطانیہ اور امریکہ نے ایران پر یلغار کی اور ہمارے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ عوام کا مال و متاع اور عزت خطرے کا شکار ہوگئے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ لوگ پہلوی (شاہ کے والد) کے جانے پرخوش تھے!…… کیا آپ کو نہیں معلوم کہ اگر کسی روز کوئی شورش اٹھ کھڑی ہوئی اور بازی پلٹ گئی تو آپ کے گرد موجود لوگوں میں سے کوئی بھی آپ کا دوست نہیں ہوگا؟
مشورہ رَد کر دیا گیا اور اصلاح کی نیت سے مشورہ دینے والے ملاں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ عراق اور بعد ازاں فرانس میں جلاوطن خمینی کے ٹیپ شدہ پیغام پورے ایران میں گونجنے لگے۔ بعض اوقات تو یوں ہوتا کہ نماز جمعہ کے بعد یہ پیغام مساجد میں سنائے جاتے۔
1977ء کے اختتام میں ایران قبل از انقلاب والے سیاسی ہیجان کی لپیٹ میں آچکا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہیجان میں اضافہ ہو رہا تھا۔ فروری 1979ء میں انقلاب بیک وقت فتح مند بھی ہوا اور ہار بھی گیا۔ ایک جابر اور بدعنوان مغربی حواری کے خلاف عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ فیصلہ کن موقع پر فوج نے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ شورشوں کی سرکوبی کے لئے ترتیب دیئے گئے دستوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ شاہ ایران نے بھاگ کر دیارغیر میں پناہ لی اور یوں تاریخِ ایران کی مختصر ترین خاندان شاہی کا خاتمہ ہوا۔ قید خانوں پر ہلہ بول دیا گیا۔ تشدد کا شکار ہونے والے مبہوت زدہ سیاسی قیدی یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ وہ آخر فتح مند ہوچکے ہیں۔
وہ دو سال سے منتظر تھے۔ جیل کے اندر اور باہر یہ واضح تھا کہ شاہ کو شکست ہوچکی ہے، شاہ کی رخصتی محض وقت کا سوال تھا مگر دوران انقلاب وقت ہی تو اہم ہوتا۔ وقت ہر چیز کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ آزادی قیدیوں کی منتظر تھی۔
فتح مند ہجوم سڑکوں پر گشت کر رہے تھے۔ ہر طرف مستی کا عالم تھا۔ آئینہ تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو یہ جانے پہچانے عکس تھے۔ 1789ء میں باستژی کے باہر پیرس کا ہجوم۔1917ء میں پیٹروگراڈ کے مزدوروں کا ہجوم جو اس انتظار میں تھے کہ ان کا سب سے زیادہ ترقی پسند رہنما فن لینڈ اسٹیشن پر ریل گاڑی سے اترے۔ زار کے دستے گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے رفتہ رفتہ بالشویکوں سے جا ملتے ہیں۔ اکتوبر 1949ء اور بیجنگ، پُرجوش و مشتاق، اس انتظار میں کہ ماؤ زے تنگ اوراس کی فوجیں شہر میں داخل ہوں اور انقلاب چین کی فتح کا اعلان کریں۔ 1959ء ہوا نا: آمراور اس کے مافیا حواری ملک سے فرار ہو رہے ہیں اور گوریلا فوج فاتح بن کر شہر میں داخل ہوتی ہے۔ اپریل 1975ء میں سائیگون: ویت نامی کمیونسٹ پہنچ رہے ہیں، امریکی جھنڈے سرنگوں ہو رہے ہیں اور امریکی ہیلی کاپٹر سفارت خانے سے اپنے اہل کاروں کو نکال رہے ہیں۔

1979ء میں تہران اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ ان شناسا مناظر سے کئی لوگ دھوکا کھا گئے، بالخصوص بائیں بازو والے اور لبرل، ایران میں بھی اور باقی جگہوں پر بھی: پورے مغربی یورپ (بالخصوص مغربی جرمنی میں تو خاصی شدت کے ساتھ) ساٹھ کی دہائی کے اوائل سے ایرانی سیاسی قیدیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک مہم چل رہی تھی اور شاہ ایران جب بھی غیر ملکی دورے پر جاتے یہ لوگ مظاہرے کرتے۔ قدرتی سی بات ہے کہ تہران سے آنے والی خبروں پر خاصا جوش و خروش پایا جار ہا تھا۔
یہ سچ ہے کہ اس انقلاب کی علامت پیرس کے مضافات سے لوٹنے والا ایک باریش ملاّ تھا مگر یہ بات یقینی تھی کہ وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا تھا۔ وہ گیرونڈن تھا، فادر گاپون تھا، کرنسکی تھا جو جلد ہی تاریخ کے کوڑا دن میں پہنچے والا تھا۔ مولوی کی جگہ لینے کے لئے مزدور اور شہری کو نسلیں یا قومی محاذ کے سیکولر لبرل اور بائیں بازو والوں کا اتحاد یا فوج کے وہ افسر جو ترقی پسندی کی راہ پر چل پڑے تھے یا کوئی بھی آسکتا تھا۔ کوئی بھی کامیاب ہو سکتا تھا ماسوائے مولویوں کے۔
ایرانی بائیں بازو کے لئے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا کہ انقلابی فتح حاصل کرنے والے بڑے عوامی مظاہروں اندر متحرک لوگ اس وقت واقعی سنجیدہ تھے جب وہ اللہ اکبر یا خمینی زندہ باد کا نعرہ لگاتے یا جب وہ اسلامی جمہوریہ بنانے کی بات کرتے ہوئے پگڑ والے مولویوں کی تقریریوں پر تالیاں بجاتے۔ مغربی یورپ کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فائدہ مند احمق جو ان تاریخ ساز واقعات میں حصہ لینے پہنچے ہوئے تھے، وہ اس جوش و خروش کی رو میں بہہ گئے اور اظہار یکجہتی کے لئے وہ بھی یہی نعرے لگا رہے تھے۔ اس لئے نہیں کہ انہیں ان پر یقین تھا بلکہ اس لئے کہ وہ ایرانی عوام کو بھی موقع پرست سمجھ رہے تھے۔ مذہب تو محض گرد اٹھی تھی جو تازہ اور طاقتور ہواؤں کے آتے ہی بیٹھ جانی تھی۔ یہ محض باطل شعور تھا جو طبقاتی جدوجہد کی بھاری آمیزش سے ہی درست ہو سکتا تھا۔ خمینی کا سیاسی پروگرام غیر متعلقہ تھا، اصل چیز خمینی کے اقدامات تھے۔ ایسا یقینا نہیں تھا لیکن بہت سے لوگ تھے جو چاہتے تھے ایسا ہی ہو۔
تین ماہ کے اندر اندر نئی حکومت کے نقش و نگار واضح ہوئے تو کٹر اور بے رحم اسلامی جیکوبن ازم کا چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ برطانیہ اندر 17ویں صدی میں پروٹسٹنٹ بنیاد پرستی کی فتح کے بعد سے اس قسم کی کوئی چیز پہلی بار دیکھنے میں آئی تھی۔ وقت کا فرق اہم تھا۔ یہ تاریخ، روشن خیالی، یورپ پرستی کے جنون، مغرب پرستی اور ترقی کے خلاف بغاوت تھی۔ یہ ایک پوسٹ ماڈرن انقلاب تھا جو پوسٹ ماڈرن ازم کے رواج پانے سے پہلے ہی برپا ہو گیا تھا۔ اس میلان کی اول اول نشاندہی کرنے والوں میں ایک فوکالٹ بھی تھا جو اسلامی جمہوریہ کا دفاع کرنے والا نمایاں ترین یورپین تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟
برطرف شدہ شاہ کے والد نے کوشش کی تھی کہ بذریعہ جبر ملاؤں کا خاتمہ کر دیا جائے: کوئی مُلّا اختلاف کرتا تو اسے سرعام کوڑے مارے جاتے۔ بیٹے نے احتیاط کا مظاہرہ کیا، امداد اور چندے کے ذریعے ملاؤں کو خریدنے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی۔ اصل مسئلہ مولوی نہیں وہ حالات تھے جن کا ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والی اکثریت کو سامنا تھا۔ مذہب ایرانی معاشرے کے ڈرائنگ روموں میں تو شائد عدم توجہ کا شکار کوئی اضافی شے تھا لیکن سرونٹ کوارٹروں اندر اس کا غلبہ تھا۔ شیعہ رجعت پرستی فرار کا درس دیتی رہی۔ امام وقت…… شیعہ مسیحا…… کی آمد کا دیہاتوں میں شدت سے انتظار کیا جا رہا تھاجہاں کسان جبر اور ناانصافی کے ہاتھوں پسے جاتے تھے۔ انقلاب البتہ مکمل طور پر شہری مظہر تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آخری وقت میں بھی شاہ نے سڑکوں پر ہجوم کے خلاف کسی حد تک کسانوں کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کی ایک وجہ تو 1960ء کی دہائی اندر ہونے والی زرعی اصلاحات تھیں جن کے نتیجے میں بعض کسانوں کو زمین ملی اور باقی کے کسان شہروں میں نیم پرولتاری زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی دیہاتوں میں جڑیں کاٹنے کا مقصد 1970ء کی دہائی میں ہونے والی صنعت کاری کے لئے مزدور فراہم کرنا تھا لیکن ان کی اکثریت کو کارخانے جذب نہ کر پائے اور وہ تحفظ سے عاری ایک محروم معاشرتی پرت بن گئے۔ یہ وہ محروم سابق کسان تھے جو شہروں میں اسلامی انقلاب کا ہراول بن گئے۔
ان کی اپنی مشغولیت سے ہٹ کر اگر باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ تھا تو وہ مقامی مسجد اور اس کی خیرات کی صورت ہوتا تھا۔ وہ بعد از موت اچھی زندگی کے لئے آسمانوں پر بسنے والے خدا اور زمین پر اس کے ماننے والوں کی طرف دیکھتے۔ ایسا نہیں کہ وہ شرع کے ہر حکم پر عمل کرتے۔ ہفتہ بھر کی مشقت کے بعد وہ عرق کی بوتل سے بھی دل بہلاتے البتہ پینے کے بعد وہ اچھی طرح کلی کرتے مبادا گھر جاتے ہوئے کسی مُلاں سے ٹاکرا ہو جائے۔ شیعت میں بھی زنا پر کڑی سزا تھی۔ البتہ اہل سنت کے برعکس شیعت نے رات بھر کے تعلق کو ادارے کا درجہ دے کر سزا کی شدت میں کمی کر دی تھی، چکلے یا ہوٹل جاتے ہوئے راستے میں ’عارضی شادی‘ کے لئے مذہبی اجازت نامہ لیا جا سکتا تھا۔
1975-6ء میں ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوئی جو شاہ کی ان ’اصلاحات‘ کی ناکامی کا اظہار تھا جن کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے تھے۔ طفیلی ریاستی ڈھانچہ تیل سے ہونے والی آمدن کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتا تھا۔ اسلحے پر ہونے والے اخراجات بالخصوص بہت زیادہ تھے اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ دس لاکھ لوگ بے روزگار تھے جبکہ افراط زر تیس فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ کریڈٹ کی پابندیوں اور درآمدی ضوابط میں نرمی پر بازار کے تاجر محسوس کرتے تھے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ انہوں نے حکومت کے خاتمے کے لئے ملاؤں کو چندے دینے کا فیصلہ کیا۔
معاشرتی انصاف، بدعنوانی کے خاتمے اور ثقافتی صفائی کے جو وعدے ملاؤں نے کئے ان میں شہری غریب آبادی کے لئے بڑی کشش تھی۔ ملاں ہی واحد متبادل ہیں، ان کا اصرار تھا، کمیونزم اور قوم پرستی، دونوں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں مصر اور کمبوڈیا دو بڑی مثالوں کے طور پر پیش کئے جاتے۔ ایک اسلام باقی تھا۔ اسلام پھر سے سرفراز ہو سکتا تھا بشرطیکہ لوگ اس منصوبے کی حمایت کریں۔ چونکہ سرکاری طور پر کمیونزم تاحال زوال پذیر نہیں ہوا تھا چنانچہ اسلامی پرت نے ڈھٹائی کے ساتھ اس کے توشہ خانہ سے مال چرایا۔ مذہبی تحریک کے وہ حصے جو زیادہ ترقی پسند تھے، اکثر ’غیر طبقاتی معاشرے‘ کی اصطلاح استعمال کرتے۔ غیر طبقاتی معاشرے کے سب سے بلند بانگ دعویدار تھے مجاہدین…… اسلامی دنیا کی ایک منفرد پیداوار۔ قیدخانوں میں یہ مجاہدین ان ملاؤں اور مذہبی قیدیوں سے پرہیز کرتے جو ’ناپاک‘ بائیں بازو کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے سے انکار کرتے تھے۔ ایسا بھی وقت آیا کہ جیل کے اندر بھی اور باہر بھی مجاہدین مارکسزم سے اس قدر قریب ہوئے کہ انہوں نے اسلام ترک کر کے انقلابی مارکسی ہونے کا اعلان کر دیا۔ پیکار نامی یہ گروہ ایرانی بائیں بازو اندر تیسرا بڑا دھڑا تھا۔
بازار کی حمایت، بے روزگار و صاحب روزگار مزدوروں کی جدوجہد میں شرکت اور شیعت کے نجات بخش نظرئیے کے امتزاج سے ایرانی معاشرے اندر ایک کارگر اور ناقابل مزاحمت طاقت وجود میں آگئی۔ فروری 1979ء میں ملاؤں نے وقت سے فائدہ اٹھایا۔ اب کی بار انہیں علم تھا کہ اب شاہ کی واپسی نہیں ہوگی۔ اگلے ڈیڑھ سال تک انہوں نے اپنے جبر کے ہتھیار تیار کئے جن میں پاسداران انقلاب بھی شامل تھے اور کارخانوں، دفاتر، درسگاہوں اور فوجی دستوں اندر موجود بائیں بازو کے اثرات کا خاتمہ کرنے لگے۔ جب یہ سب ہو رہا تھا طودہ کو تب بھی مستقبل کی تصویر نظر نہیں آرہی تھی۔ طودہ پارٹی نے ’الٹرالیفٹ‘ کے خلاف جبر کی حمایت کی۔
1951ء میں اور بات تھی۔ تب بائیں بازو اور سیکولر— لبرل—قوم پرستوں کی جیت ہوئی تھی، مصدق وزیر اعظم بن گئے اور شاہ کوراہ فرار اختیار کرتے ہوئے جلاوطنی میں جانا پڑا۔ لیکن حکومت سی۔آئی۔ اے اور برطانوی انٹیلی جنس کے شروع کئے ہوئے ردِ انقلاب کے خلاف عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔ مغرب چھچھورے حکمران کو واپس لے آیا اور یوں ایران سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع ضائع ہوگیا۔پرانے نواب اور قاچار خاندان شاہی کے آخری چشم و چراغ مصدق نے طاقت کے استعمال سے پرہیز کرنے کا فیصلہ کیا۔
مصدق کے محافظ نے آخر وقت تک مزاحمت کی۔ کہنہ سال شخص بھی مزاحمت کرنا چاہتا تھا مگر اسے امید تھی کہ فوج اندر طودہ کے حامی…… اور ان خفیہ حامیوں کی خاصی بڑی تعدادتھی…… آکر اس کا دفاع کریں گے۔ ان حامیوں نے اس بے دلی سے مداخلت کی تھی کہ کامیابی کا کوئی امکان نہ تھا۔ کچھ پارٹی رہنماؤں کا خیال تھا کہ مصدق کے راستے سے ایک بار ہٹ جانے کی صورت وہ اقتدار پر قبضہ کر سکیں گے مگر یہ فرقہ پرستی بھی تھی اور حماقت بھی۔ ایک بار جو شاہ کی واپسی ہوئی تو فوج اندر طودہ تنظیم کو بری طرح کچل دیا گیا۔ پارٹی اس وار سے کبھی جانبر نہ ہو پائی۔
سی۔آئی۔اے نے کچھ مغرب نواز مولویوں کے ذریعے کرائے کا مجمع اکٹھا کرنے کے لئے پچاس لاکھ ڈالر صرف کئے تھے۔ آخر مصدق کو جانا پڑا۔ مصدق کا جرم بھی وہی تھا جو ناصر کا تھا: انہوں نے ایران کا تیل قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ برطانوی حکومت سخت ناراض تھی۔ مصدق کا خیال تھا کہ امریکہ لندن کو مداخلت سے باز رہنے کے لئے کہے گا اور کچھ عرصے کے لئے تو ٹرومین اور ایچ سن نے طرفین کو برداشت کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دے کر غیر جانبداری کا تاثر دیا بھی سہی۔ میک ملن نے اپنی ڈائری میں لکھا: ”ایچ سن نے برطانیہ اور فارس کو پرسکون رہنے کا مشورہ دیا! گویا ہم کوئی بلقان کے دو ملک ہیں جنہیں 1911ء میں سرایڈورڈ گرے وعظ کر رہے ہوں!“
ہنوز ایسا نہیں تھا البتہ ایسی صورت حال درپیش آیا ہی چاہتی تھی۔ اس بار واشنگٹن کے سرد جنگ کے خدشات کو استعمال کرتے ہوئے لندن جیت گیا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ ایرانی کمیونسٹ پوری طرح مصدق حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور مستقبل میں کمیونزم کی فتح کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے میاں کو برطرف کر کے نظربند کر دیا گیا۔ سیکولر قوم پرست متبادل کو ہٹا دینے کے بعد شاہ کو یہ اجازت مل گئی کہ وہ جیسے چاہیں ملک کے معاملات چلائیں مگر شرط یہ تھی کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کا خیال رکھیں گے۔ شاہ نے ایسا ہی کیا۔ شاہ کا اصل ہدف ایرانی کمیونسٹ اور ان کے حامی تھے۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور تشدد حکومت کا امتیاز بن گیا۔ پچاس کی دہائی میں ہزاروں طالب علم اور دانشور جلاوطنی میں چلے گئے۔ پھر ساٹھ کی دہائی میں شاہ کا ’سفید انقلاب‘ آیا جس کے تحت زرعی اصلاحات ہوئیں اور خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ خمینی نے دونوں اقدامات کی مخالفت کی۔ 1963ء میں ہونے والے فسادات کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا اور اسی کارن انہیں دیس نکالا دیا گیا۔ سچ مچ۔ انہیں عراق کی سرحد پر لے جا کر سرحد پار دھکیل دیا گیا۔ اس جلاوطن نے زبردستی کے دیس نکالے کو خوب استعمال کیا۔
دانشوروں، لبرل لیفٹ ونگ طالب علموں اور خود مذہبی تحریک کے بعض حصوں نے 1979ء کے انقلاب سے جو امیدیں وابستہ کیں ان پر جلد ہی پانی پھر گیا۔ لوگ سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال سے تنگ تھے لہٰذا نئی حکومت اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن یہ امیدیں بے جا تھیں کہ ترقی پسندی ملاؤں کو مات دے دے گی۔ بائیں بازو کو تو بھاری نقصان اٹھانا پڑا جو مذہبی آمریت کے مضمرات بارے خبردار کرنے میں بالکل ناکام رہا البتہ ’انقلاب مرچکا‘ ’انقلاب زندہ باد‘ کا دعویٰ کرنے والے دیگر گروہ لوگوں کو ملاؤں کے خلاف متحرک کرنے میں کامیاب رہے۔ ایسے ہی ایک گروہ کو نئے آئین کی تیاری خاطر ایوان کارگران کے لئے ہونے والے واحد، نسبتاً، آزادانہ انتخابات میں تہران سے 150,000 ووٹ پڑے۔ ان گروہوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ مذہبی حکومت کی ہئیت نہیں سمجھ پا رہے تھے، مسئلہ تو یہ تھا وہ ریاست، سماج اور پارٹی کی سطح پر جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ نہیں کر پا رہے تھے۔

طودہ پارٹی کے کمیونسٹ اور قومی محاذ کے سیکولر لبرل عوامی تحریک کی صفوں سے باقاعدہ غائب تھے۔ فارلیفٹ٭ کی سوچ کے برعکس یہ عدم موجودگی مسئلہ ضرور تھا، فائدہ مند ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ملاں تحریک اندر واحد منظم قوت تھے۔ ان کا نظریہ غالب آگیا۔ ان کی فتح سے وہ مات کھا گئے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ جمہوری حقوق، قومی و مذہبی اقلیتوں پر جبر کے خلاف اور عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مرکزیت پسند پہلوی ریاست کے انہدام سے خودمختاری کے جذبات کو ہوا ملی لہٰذا خوزستان، کردستان، بلوچستان اور آذربائیجان میں خودمختار حکومتوں کی تحریکیں سامنے آئیں۔ ان تحریکوں کا قلع قمع کرنے کے لئے ملاؤں کی توانائی تو ملک کو متحد رکھنے کے لیے گزشتہ حکومت کے جوش کو بھی مات دے گئی۔
انقلاب کے فوری بعد جمہوریت پنپنے لگی اور کتابچے، کتابیں، اخبارات، عوامی اجتماع، مباحث اور پنچائتیں پھوٹ پڑیں۔الفاظ چاہے نہ سہی البتہ ان کی موجودگی اسلامی جمہوریہ بارے ملاؤں کی سوچ اور حکومت پر ان کے ’ابدی حق‘ کو للکار رہی تھی۔ ملاؤں نے اس خطرے سے ہمیشہ کے لئے نجات کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں سیکولر اسٹ قوتوں کے غیر تنقیدی فتوؤں نے ان کی مدد کی۔
طودہ پارٹی کی موقع پرست، اور موقع پرست محض نرمی برتنے کے لئے کہا جا رہا ہے، مداخلت غیر موثر تھی۔ ملاؤں کے ساتھ پاپولر فرنٹ بنانے کی کوشش سے انہوں نے محض اپنے سر میں خاک ڈالی۔ مارچ میں خمینی نے خواتین کے لئے پردے کا فتویٰ جاری کیا۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بیس ہزار خواتین نے باہر نکل کر اس فتوے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ طودہ پارٹی نے خمینی کے خلاف ’بورژوا خواتین‘ کے سڑکوں پر مارچ کی مذمت کی۔ طودہ نے قومی محاذ والے پرانے لبرل ساتھیوں کو آزادیئ صحافت کا دفاع کرنے پر لتاڑا، انہوں نے ملاؤں کی مزاحمت کرنے پر کردوں اور ترکمانوں کی مذمت کی۔ فار لیفٹ گروہ بھی ’مشکبو‘ خواتین کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔
جلد ہی ان سب کا خاتمہ ہونے والا تھا۔1981ء میں ریڈیکل لیفٹ اور مجاہدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ جیلیں ایسی بھریں کہ اس کی مثال تو شاہ کے دور میں بھی نہیں ملتی تھی۔ 1983ء میں طودہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اسی طرح گرفتار کر لیا گیا جس طرح ان خواتین، انقلابی بائیں بازو، کردوں اور ترکمانوں کو کیا گیا جن کی جدوجہد کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ منظم تشدد اور جسمانی سزاؤں پر ایران میں بیس کی دہائی میں پابندی لگا دی گئی تھی البتہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں شاہ کے دور میں پھر سے ان کا استعمال شروع ہوگیا تھا۔ شاہ کی خفیہ پولیس ساوک پوری دنیا میں بدنام تھی اور ہر سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں اندر اس کا تذکرہ انسانی حقوق و تکریم کی شدید خلاف ورزی کرنے والے ادارے کے طور پر ہوتا تھا۔ مذہبی قیدی اور کمیونسٹ، دونوں ہی حکومت کا نشانہ بنتے، اکثر ایک ہی کوٹھڑی میں بند کئے جاتے۔ اب ملاں بالکل یہی طریقہ کار اپنے ’دشمنوں‘ کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔
شاہ نے گاہے بگاہے دشمنوں کو پیسے یا جلاوطنی کے عوض خریدا۔ ملاں سرعام تذلیل کے حامی تھے۔ انہوں نے دکھاوے کی عدالتیں لگائیں اور قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تاآنکہ قیدی ٹی وی پر آکر پچھتاوے کا اظہار کریں۔ جدید ایرانی تاریخ کا ایک الم ناک باب وہ مناظر ہیں جن میں بے شمار جدوجہدوں کی قیادت کرنے والی طودہ لیڈر شپ ٹی وی پر آکر اپنے شیطانی ماضی سے تائب ہو کر اسلام اور اس کے شیعہ پاسداران سے وابستگی کا اظہار کرتی ہوئی دکھائی گئی۔ انہوں نے ماضی کے مذہبی رہنماؤں کو ’رجعت پسند‘، ’جنونی پیٹی بورژوا‘ اور ’جاگیرداروں کے نمائندے‘ کہنے پر معافی مانگی۔ انہوں نے اپنی ہی تحریروں کو رد کیا۔(30) تشدد کا نشانہ بننے والوں کے اقدامات پر تنقید ممکن نہیں البتہ ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا یہ مبالغہ آمیز خود تنقیدی شیعت کی تخریب کے مترادف نہ تھی کہ اس کی تو ثقافت ہی شہیدوں کے خون سے نہائی ہوئی ہے۔ طودہ کارکنوں کا شہید بننے سے انکار ایک واضح علامت تھی کہ ان کی اکثریت کے نزدیک، ’تبدیلی مذہب‘ محض سوانگ تھا۔
ہزاروں لیفٹ ونگ کارکن وہ تھے جنہوں نے شاہ کا خاتمہ کرنے والی تحریکوں میں بہادری سے حصہ لیا تھا۔ ان پر بھی تشدد ہوا۔ انہوں نے توبہ تائب ہونے سے انکار کر دیا اور ان کی سزا تھی قتل عام۔
یہ مذہبی آمریت کا اندرونی چہرا تھا لیکن ابتدائی سالوں میں اسے لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ مارچ 1979ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں اسے اسلامی جمہوریہ کے لئے اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ کچھ وہ تھے جنہوں نے شاہ کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ ریڈیکل لیفٹ نے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ حکومت خود کو جائز ثابت کرنے کی کوشش میں تھی تاوقتیکہ وہ تمام مخالفین کا صفایا کر سکے۔ سچ ہے کہ انقلاب آئے ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا مگر اشارے موجود تھے۔ سیکولر قوتیں مکمل طور پر تتر بتر تھیں۔ اس حمایت کی بنیاد پہ ہی تو اکثر ملاں یہ جواز پیش کر رہے تھے کہ دہشت عوام کی منشاء کا انقلابی اظہار ہے: یہ بلاشبہ سینٹ جسٹ اور ٹراٹسکی کے سائے تھے۔
شاہ کی برطرفی بلاشبہ مشرق قریب و مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پرکاری ضرب تھی مگر نکاراگوا میں ساندینستا کی فتح سے یہ واقعات ماہیت کے لحاظ سے قطعی مختلف تھے۔ واشنگٹن ہنوز سرد جنگ کے آخری مراحل میں الجھا ہوا تھا۔ ہوانا، ہنوئی اور ماناگوا کی صورت لاحق خطرہ کسی حد تک دیدہ دانستہ تھا جبکہ اسلامی جمہوریہ سے اس قسم کا خطرہ درپیش نہیں تھا۔ تہران سے درپیش خطرہ امریکہ کو براہ راست متاثر نہیں کرتا تھا۔ اگر تہران عراق، سعودیہ عرب اور خلیجی ریاستوں میں شیعہ بغاوتوں کو ہوا دیتا تو مسائل ضرور کھڑے ہو سکتے تھے۔
اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی نے ہر جگہ اسلام پرستوں کو جوش دلایا۔ اس نے شیطان اعظم (امریکہ) اور سویت یونین کے خلاف تا مرگ جدوجہد کا عہد کیا۔ اول الذکر اسرائیل اور سعودی عرب ایسے حقیقی اسلام کے دشمنوں کا رکھوالا تھا۔ ثانی الذکر دھریت اور مادیت پسندی کا منبع۔ دونوں تجزئیے ہی درست تھے البتہ ملاؤں نے جو زور دیا وہ امریکی سفارت خانے کے باہر لوگوں کو اکٹھا کرنے پر دیا تاکہ شاہ پر مقدمہ چلانے کے لیے شاہ کی واپسی کا مطالبہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد ڈرامائی انداز میں سفارت خانے پر قبضہ کر کے عملے کو یرغمال بنا لیا گیا۔ یہ ایک تاریخی ناٹک تھا، یہ قابلِ نفرت حکمران سے بدلے کا مطالبہ، مگر سامراج مخالف؟
درحقیقت امریکی سفارت خانے کے باہر اجتماع وہ پردہ تھا جس کی اوٹ میں انتہائی رجعتی سماجی اقدامات اُٹھائے گئے جن کے تحت زانیوں اور ہم جنس پرستوں کو پھانسیاں دی گئیں جبکہ بائیں بازو، چھوٹی قومیتوں (کردستان میں پھر سے جنگ چھیڑ دی گئی) اور مجاہدین کو پوری طرح شکنجے میں کس دیا گیا۔
سامراج کو ایسے سماجی ڈھانچے سے کیا خدشہ ہو سکتا تھا؟ اس کے اصل دشمن تو منڈی کے قوانین سے ماورائیت چاہتے تھے اور اپنے عروج کے دنوں میں انہوں نے ڈرامائی انداز میں سامراج کی عالمی پہنچ کو محدود کر دیا تھا: سویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین عالمی سرمایہ داری کے لیے’نوگو ایریاز‘ بن چکے تھے۔ سر زمین امریکہ سے چند میل کے فاصلے پر کیوبانے مافیا سرمایہ داری سے دامن چھڑا کر ایک کاری ضرب لگائی تھی۔ یہ تمام ریاستیں بہتر سماجی و معاشی نظام کے لیے کوشاں تھیں۔ ان کی موجودگی سامراج کے لیے ایک للکار تھی۔ ایران میں سامنے آنے والی سامراج مخالفت تو محض احمقوں کی مخالفت تھی جو وسیع المدتی خطرے کے طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
ایسا نظام جو الہامی احکامات پر قائم ہونے کا دعویدار ہو جس میں محض مولوی تفسیر کا حق رکھتے ہوں اور وہ جو چاہیں کرتے پھریں، ملاؤں کے کسی اپنے حصے یا کسی اور طرف سے، کسی بھی قسم کی مخالفت کا یہ مطلب ہو کہ یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، جو خود کسی کو جوابدہ نہیں۔ اقتدار پر خمینی کی مکمل گرفت کے نتیجے میں نسبتاً آزاد خیال اسلام پرستوں کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی، مثلاً پہلے منتخب صدر، نبی صدر، کی مثال ہے جبکہ اختلاف کرنے والے آیت اللہ حضرات کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ متعصب نا معقولیت پر مبنی اقتدار کتنا عرصہ چل سکے گا؟ اس کے خاتمے کے لیے کون سی سماجی پرتوں کو متحرک کرنا پڑے گا؟ یہ سوال قید خانوں اور گھروں میں سرگوشیوں کی صورت ابھی ہونٹوں سے ادا ہوئے تھے کہ ایک حقیقی خطرے نے سر اُٹھا لیا۔
مغرب براہ راست فوجی مداخلت کے حق میں تو نہ تھا البتہ وہ تہران حکومت کے اثرات سے چیں بجبیں تھا۔ کافور صفت خطے میں صدام حسین کو نیم قابل بھروسہ مہرہ سمجھا جاتا تھا۔ اندرون ملک اس نے عراقی کمیونسٹ پارٹی کو مٹانے اور بعث کے ترقی پسند عناصر کو فارغ کرنے میں مدد دی تھی۔ وہ امریکہ اور برطانیہ سے سودے بازی کرنے پر تیار تھا۔ شاہ کے خاتمے بعد واشنگٹن اور لندن نے صدام کو موسٹ فیوریڈ نیشن کے طور پر ملنا شروع کر دیا تھا۔
واشنگٹن کو خلیجی باجگزاروں پر حکومت کرنے والے امیروں اور شیخوں کی فکر تھی مگر اس سے بھی بڑھ کر اسے سعودی بادشاہت کا ’استحکام‘ عزیز تھا۔ ان حکمرانوں کے پاس اگرحکمرانی کا کوئی جواز تھا تو وہ تھا واشنگٹن کی سرپرستی۔ ایک موقع پر نمک کے شہر کا ایک کردار وہ سوال کرتا ہے جس کا جواب سبھی کو معلوم ہے: ’اور امیر، کیا وہ ان کا امیر ہے تاکہ ان کا دفاع اور حفاظت کر سکے یا وہ امریکیوں کا امیر ہے؟‘
وہ سب کے سب چونکہ امریکیوں کے امیر تھے لہٰذا وہ خوفزدہ تھے مبادا ایرانی وبا ان کی عوام اندر بھی پھیل جائے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک بار اگر مزاحمت نے لوگوں کے دلوں میں جڑپکڑ لی تو پھر امریکہ بھی ان کے تخت نہیں بچا سکے گا نہ ہی شیعہ سنی کی تفریق کسی کام آئے گی جسے وہ بے رحمی سے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے لیے استعمال کرتے آئے تھے۔ اگر واشنگٹن اتنے بڑے شاہ کو نہیں بچا سکا تو ان کی کیا حفاظت کرے گا؟
ان خوفزدہ حضرات نے بغداد میں بیٹھے غاصب کی لالچی آنکھوں کے سامنے اشرفیوں سے حاملہ بٹوے لہرائے۔ انہوں نے صدام کی خوشامد کی۔ صدام پر سونے کے سکوں کی بارش کر دی۔ کویت کے حکمران خاندان کی نو عمر رُکن، شاعرہ سعود الصبا کی قیادت میں خوشامدیوں نے قوالی شروع کی، قصیدے پڑھے گئے، صدام کو ’سیف العراق‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ وہ فریاد کناں ہوئے کہ ایران کے ملاؤں کو کچل ڈالو، اور یاد دلایا، گویا یاد دہانی کی کوئی ضرورت تھی، کہ عراق میں شیعاؤں کی اکثریت ہے اور صدیوں پہلے شہید حسین کے خون سے تر ہونے والا مقدس ترین مقام، بھی عراق میں ہے۔ بحرین اور کویت پر ایرانیوں کے قبضے کی صورت وہ عراق میں بھی سرکشی کو ہوا دے سکتے تھے جبکہ ریاض کو بھی خدشہ لاحق ہو جاتا۔
عراقی بعث کے رہنماؤں نے ہمدردی سے سب سنا البتہ کوئی وعدہ نہیں کیا۔ انہیں صرف ایک سوال میں دلچسپی تھی۔ وائٹ ہاوس کا امیر کیا چاہتا ہے؟ جب یہ براہ راست ضمانت مل گئی کہ واشنگٹن نے اجازت بھی دے دی ہے اور عراق کی متوقع فوجی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس نے اپنے سب سے بڑے ہوائی جہاز یعنی سلطنت برطانیہ کو چوکس کر دیا ہے تب جا کر صدام نے ایران کے خلاف جنگ شروع کی۔ خلیج کے حکمرانوں کی طرح صدام کو بھی پورا یقین تھا کہ امریکی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں۔ (31)

ایران عراق جنگ ایک مہیب تنازعہ تھا جو 1980-88 آٹھ سال جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کی یاد تازہ کرنے والی اس جنگ کی لڑائیوں میں دس لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے۔1982ء میں تہران حکومت نے کامیاب جوابی حملے کر کے وہ تمام علاقے واپس حاصل کر لئے جن پر 1980ء میں عراق نے قبضہ کیا تھا۔ بغداد میں بعث قیادت نے مل کر صدام کو تنہا کر دیا۔ انہوں نے بھرپور جنگ بندی کی پیش کش کی جس میں تمام ایرانی مطالبات تسلیم کئے گئے تھے۔ ایسا ہو جاتا تو صدام کا خاتمہ ہو جاتا۔ فوجی کامیابیوں کے جوش میں خمینی نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ خمینی کا خیال تھا کہ اگر اسلامی انقلاب نہ پھیلا تو اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور حکومت کے بہت سے حامی دانشور سرعام یہ کہہ رہے تھے۔ اس فیصلے نے بغداد میں بعث اندر حزب اختلاف کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔
صدام بچ نکلا، اس نے اندرونی مخالفت کا قلع قمع کر دیا اور جنگ جاری رکھی۔ امریکی بحری جہاز خطے میں داخل ہو کر لڑائی میں حصہ لینے لگے اور انہوں نے ایرانی بحریہ کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ دہشت گردی کی ایک مکمل بلاجواز کارروائی کرتے ہوئے امریکہ نے مسافروں سے بھرے ایرانی ائرلائنز کا ایک طیارہ مار گرایا۔ ایرانی، جنہیں اب پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ صدام کے پیچھے واشنگٹن کے جنگی جہاز اور برطانیہ کا گولہ بارود ہے، امن کے لئے تیار ہوگئے۔ البتہ حکومت بچ گئی۔ وقتی طور پر ملاؤں کی گرفت مضبوط ہوگئی البتہ ان کی اپنی صفوں اندر دراڑ پڑ گئی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ حکومت بچ جانے کی صورت میں اس کے رہنما شہادت کے رتبے سے محفوظ رہے۔ اپنے ملک اور عوام کے ساتھ جو انہوں نے کیا اس کی ذمہ داری وہ کسی اور پر نہیں ڈال سکتے تھے۔ نئی نسل جو شاہ کو نہیں جانتی تھی، اسے اپنے نتائج خود اخذ کرنا تھے۔ ملاؤں نے آنے والی اصلاحات کے بیج بو دیئے تھے۔
کونپلوں کے نقوش اول اول فلمی میلوں کے مواقع پر سینما سکرین اور آرٹ ہاؤس سینماؤں میں دکھائی دیئے۔ اگلے مرحلے میں طلباء کی بغاوت سامنے آئی جو اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد خواتین نے مذہبی پولیس کی لاگو کردہ پابندیوں کی مزاحمت شروع کر دی۔ ایک اصلاح پسند ملاّ صدر منتخب ہوا جو یہ مشورہ تو دے پایا کہ بنک سود ادا کر سکتے ہیں البتہ حکومت کے سخت گیر بدمعاشوں کے ہاتھوں طلباء اور دانش وروں کی ہلاکتوں کو نہ روک سکا۔ 2001ء میں ملاؤں کے خلاف 52 مظاہرے ہوئے، اوسطاً سال بھر فی ہفتہ ایک مظاہرہ، 370 ہڑتالیں ہوئیں، اوسطاً سال بھر روزانہ ایک ہڑتال جبکہ نوجوانوں اور مذہبی پولیس، جو بدعنوان اذیت پسندوں کا گروہ ہے، کے درمیان کھلی جھڑپیں ہوئیں۔
قبل از اسلام بت پرست عہد کے نئے سال کے موقع پر ہونے والا جشن نو روز پچھلے دو سال سے منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر نوجوان مرد اور بے نقاب نوجوان خواتین مذہبی پولیس کو اس کے کالے کارناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ محض آغاز ہے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ تجربے امریکی بموں کی نسبت کہیں بہتر استاد ہیں۔ وجہ مختصراً یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں اور نئی نسل کسی جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت ملاؤں اور ان کے مذہب سے غیر معمولی نفرت کرتی ہے۔

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔