ساجد نعیم
8فروری 2024ء کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اس قدر غیر متوقع نہیں جتنا کہ انہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن انجینئر کرنے والے عناصر نے الیکشن سے قبل دھونس، جبر اور تشدد کا ہر راستہ اپنایا۔ تاہم اس سب کے باوجود الیکشن سے پہلے بھی شاید کسی سنجیدہ تجزیہ کار نے یہ خیال نہ پیش کیا ہو کہ عمران خان اس ملک کا مقبول ترین رہنما ہے۔ یقینا اسٹیبلشمنٹ بھی اس حقیقت سے شناسا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام طریقہ ہائے کار کی ناکامی کی صورت میں انٹرا پارٹی الیکشن کو بنیاد بناتے ہوئے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان‘بلا’ واپس لیا گیا ۔ اس بات کا بھی منظم انتظام کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کسی بھی سطح پر ایک ہی انتخابی نشان الاٹ نہ کیا جائے۔ اس سب اور انتہائی مشکوک سرکاری الیکشن نتائج کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی میں سب سے بڑے گروپ کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ یقینا یہ نتائج مقتدر قوتوں کیلئے کسی صدمے سے کم نہیں اور بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے مقتدرہ کے عزائم اور منصوبوں کو بہت حد تک پاؤں تلے روند ڈالاہے۔ تاہم اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے کروڑوں غریب، مظلوم اور محکوم عوام کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور عوام کا المیہ
یوں تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مسلسل عضویاتی (Organic)بحران کے باعث عالمی سطح پر سیاست روبہ زوال ہے۔ جن ترقی یافتہ ممالک میں ماضی میں انتخابات دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی اور نظریاتی پروگرامات پر لڑے جاتے تھے، وہاں بھی اب یہ تفریق مٹ چکی ہے۔ سوشل ڈیموکریسی دائیں بازو کی پالیسیوں کو دائیں بازو سے بھی بڑھ کر زور و شور سے لاگو کرتی ہے، جبکہ انتہائی دایاں بازو، جہاں کہیں بھی اس کا وجود ہے، قومی شاؤنزم اور نفرت پر مبنی سیاسی پروگرامات کا حامل ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں سیاسی افق پر موجود تمام تر سیاسی پارٹیوں کو پارٹی کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل ان کے سیاسی اور معاشی پروگرام کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جو لوگ اس سیاسی اور معاشی پروگرام سے اتفاق کرتے ہیں وہ پارٹی کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔ رکنیت سازی کی بنیاد پر نچلی سطح سے لیکر انتہائی بالا سطح تک پارٹی کی تنظیم سازی کی جاتی ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن ، جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھینا گیا، اسی سلسلے کی کڑی ہوتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک دو سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر کسی بھی پارٹی کے اندر انتخابات کی کوئی جمہوری روایت ہی نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو ملک میں جمہوریت جتنی زیادہ من بھاتی ہے، پارٹی کے اندر جمہوریت ان کیلئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے۔ سیاسی اور معاشی پروگرام کی بجائے عوام الناس کی شعوری اور ثقافتی پسماندگی کو بنیادبنا کر شخصیت پرستی کو ابھارا جاتا ہے۔ عوام کو ٹھوس بنیادوں پر چیزوں کا تجزیہ کرنے کی بجائے شخصیات کے سحر میں گرفتار کرنا شروع کیا جاتا ہے۔ سیاسی اور معاشی پروگرام کے گرد اجتماعی جدوجہد کی بجائے فرد یا افراد کو مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان مسیحاؤں کے گرد عوام کا ایک ہالا بنا کر اسے سیاسی پارٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر جن مسیحاؤں کا انتخاب کیا جاتا ہے، ان کی شخصی اور ذہنی صلاحیتوں کو اس پیمانے پر ماپا جاتا ہے کہ وہ کتنے قابل کنٹرول ہیں۔ تاہم اقتدار کی غلام گردشوں کے اپنے قوانین حرکت ہوتے ہیں۔ انتہائی کمزور افراد بھی جب وزیراعظم جیسے عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، بلکہ بطور وزیراعظم ایکٹ بھی کرنے لگتے ہیں۔
پاکستان کی زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کی تخلیق اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہوئی ۔ ان کی پرورش اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہوئی اور جب مخلوق کے اپنے خالق سے تضادات ناقابل حل حد تک جا پہنچے، تو اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ پارٹیاں، اسی کے ہاتھوں برباد بھی ہوئیں۔ بربادی کا یہ عمل عمومی طور پر آسان اس لئے ہوتا ہے کہ ان پارٹیوں کا نہ تو کوئی آزادانہ سیاسی، معاشی پروگرام ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے گرد پارٹی کیڈر اور حقیقی تنظیمی ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔ کسی ایک فرد یا چند افراد کے گرد بننے والی پارٹی اس فرد کے منہا ہونے کے ساتھ ہی دھڑام سے گر جاتی ہے۔
یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے وجود کے فوراً بعد سے آج تک (ماسوائے پہلے بھٹو دور کے) اقتدار کبھی بھی سیاسی نمائندوں کے حوالے نہیں کیا گیا، انہیں صرف حکومت دی جاتی ہے۔ اکثر افراد کیلئے یہ انکشاف شاید کسی صدمے سے کم نہ ہو کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی اگست1947ء میں آئین ساز اسمبلی کے اندر کی جانے والی تقریر سنسر ہو گئی تھی اور اگلے دن چھپنے والے کسی اخبار میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی تھی۔ اگر بانی پاکستان کی تقریر کے ساتھ یہ حشر ہو سکتا ہے ، تو باقی سیاستدان کس کھیت کی مولی ہیں۔ تاہم اقتدار کی غلام گردشوں کے جن تضادات کا قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے، وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔
محمد خان جونیجو سے کمزور وزیراعظم شاید ہی کوئی ہوا ہو۔ سر پر ضیاء الحق جیسا جابر حکمران آٹھویں ترمیم کی تلوار ، جس کے تحت صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھااور ضیاء دورکے اس سے قبل کے تمام اقدامات کو تحفظ دیا گیا تھا، لے کر بیٹھا ہوا تھا۔ تاہم تضادات پھر بھی ابھر کر سامنے آہی گئے تھے۔ جب جونیجو اور ان کی کابینہ نے مارشل لاء اٹھانے کا مطالبہ کیا تو یقینا ضیاء الحق کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا ہوگا۔ بہر حال محمد خان جونیجو نے 8ویں ترمیم پر کڑوا گھونٹ پی لیا، لیکن اپریل1988میں اوجڑی کیمپ کے دھماکوں کے بعد جب تضادات ناقابل حل ہو گئے تو بالآخر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونا پڑا۔
اپنے ہی بھوتوں کا شکار اسٹیبلشمنٹ
محمد خان جونیجو کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو اپنے سیاسی چہرے کے طور پر پروموٹ کرنا شروع کر دیا۔ پنجاب کی حد تک وہ ضیاء الحق کے دور میں ہی سیاسی وارث کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ 1988کے الیکشن میں ایک طرف سرکاری ہیلی کاپٹروں سے بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی عریاں تصویریں اور دوسری طرف ‘جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نو لگ گیا داغ’ جیسے شاؤنسٹ نعروں پر مبنی پمفلٹ شہروں پر گرا کر قومی سلامتی اور ملکی مفاد کا انتظام کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت تو ضیاء دور سے ہی غدار اور ملک دشمن چلی آرہی تھی۔ اس بے ہودہ طریقہ کار سے اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ کم از کم اتنا توانا ضرور ہو گیا کہ اس نے مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے مقابلے میں پنجاب کے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال لیا۔ یہ کتنا زہریلا پروپیگنڈہ تھا ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راقم نے ذاتی طور پر کئی عام پنجابیوں کو اسلام آباد پولیس کی مختصر شکل(IP) کو انڈین پولیس اور پنجاب پولیس کی (PP) کو پاکستان پولیس کا نام دیتے ہوئے سنا۔
1990میں بے نظیر حکومت کے تحلیل ہونے کے بعد بھی ملکی سطح پر پی پی پی سے زیادہ عوامی حمایت کی حامل کوئی پارٹی نہ ہونے کے باعث اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دے کر نوازشریف کو قومی سطح کا لیڈر بنا کر پیش کیا۔ اس عہد تک کم از کم ایک بات طے شدہ ہے کہ 1947سے لیکر1990تک اسٹیبلشمنٹ (ماسوائے1970کی دہائی کے ابتدائی چند سالوں کے طوفانی دور کے) اپنے مقاصد باآسانی حاصل کرتی رہی۔ اس کامیابی کی مادی وجوہات کی زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر یہاں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری نے عالمی سطح پر اپنا طویل ترین عروج(1946تا1975) دیکھا، جس کے بالواسطہ اثرات دنیا کے دیگر خطوں کی طرح پاکستان پر بھی مرتب ہورہے تھے۔
یوں پاکستان کی حقیقی مقتدرہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس وہ معاشی اور مادی بنیادیں موجود تھیں، جن سے وہ بآسانی اپنے اہداف حاصل کر سکتی تھی۔ 1979سے لے کر1990تک اسٹیبلشمنٹ کی مضبوطی اور طاقت کا سرچشمہ ملٹی بلین ڈالرز پر مبنی افغان جہاد اور اس کے نتیجے میں پنپنے والے کالے دھن کی بہتات تھی۔ اسی دور میں عالمی اور خطے کی سطح پر چند دیوہیکل واقعات نے آناً فاناً عالمی طاقتوں کے توازن اور خطے کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ فروری1989میں آخری سوویت فوجی نے دریا آمو پار کر کے افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء پر اپنی مہر ثبت کی۔ نومبر1989میں دیوار برلن کا انہدام ہوا۔ 1991میں دنیا کے 1/6حصے پر قائم سوویت یونین انہدام سے دوچار ہوا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ وقتی طور پر تو افغان جنگ کی جیت اور سوویت یونین کے انہدام کا جشن منا رہی تھی، لیکن بدلتے عالمی تناظر میں اس کی آزمائش کا وقت شروع ہوا چاہتا تھا۔
مسیحا تخلیق کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر واردات انتہائی پر تضاد ہوتی ہے۔ مسیحا طرح کی شخصیت کو قابل قبول بنانے کیلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ور آج کے عہد میں سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جاتی ہے۔ گویا عوام الناس کی اس انداز میں ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ایک مخصوص شخصیت کو اپنا مسیحا مان لیں۔ اس عمل کے دوران اسٹیبلشمنٹ اس فرد کے قابل کنٹرول ہونے کا ہدف کھو رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی فرد کو جس قدر عوامی حمایت حاصل ہوتی جاتی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے اتنا ہی ناقابل کنٹرول ہوتا جاتا ہے۔
معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ بعض افراد اپنے ہی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ اسے سچ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ خود اسٹیبلشمنٹ کے اندر تفریق اور تضاد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ یہ مظہر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا ،جب میاں شریف کی طرف سے جنرل جیلانی کو سیاست کیلئے عنایت کردہ سب سے نالائق اور نکھٹو بیٹا اسٹیبلشمنٹ کیلئے ناقابل برادشت ہو گیا۔ 1993میں بہت ہی محنت اور جانفشانی سے بنائی گئی اس کی حکومت تحلیل کر دی گئی، لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اندر داخلی تفریق پہلی بار عیاں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کی حکومت بحال کر دی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کیلئے داخلی محاذ پر شاید یہ پہلا جھٹکا تھا۔ نتیجتاً اس وقت کے آرمی چیف کو براہ راست مداخلت کرنا پڑی۔ نوازشریف کو فیس سیونگ دینے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے اصل نمائندے صدر غلام اسحاق کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ یوں کچھ لو اور دو کے سمجھوتے کی بنیاد پر کسی بڑے سانحے سے بچا گیا۔
1999میں نوازشریف کے خلاف ہونے والے جنرل مشرف ‘کو’کے بعد پہلی بار ایک حاضر سروس جنرل کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا اور اس کا کورٹ مارشل ہوا۔ 2001ء کے بعد امریکی سامراج کی طرف سے شروع کی گئی ‘دہشت گردی’ کے خلاف نام نہاد جنگ نے اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کو تھوڑی بہت اکنامک سپیس تو فراہم کی لیکن افغان پالیسی پر 180درجے کے یوٹرن نے فوج کے اندر تفریق اور تضاد کو مزید بڑھا دیا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ پرویز مشرف پر اس دوران ہونے والے تینوں خود کش حملوں کی منصوبہ بندی اپنے ہی ادارے کے اندر سے کی گئی۔
اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری کا ایک دوسرا پہلو بھی 1990کی دہائی کے اوائل سے ہی بہت نمایاں چلا آرہا ہے۔ 1993میں نواز حکومت کی برطرفی کے بعد نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل بھروسہ نہ رہا ۔ متبادل کے طور پر واقفان حال کے بقول تین متبادل افراد کو مارک کیا گیا۔ ان میں عبدالستار ایدھی، حکیم سعید اور عمران خان شامل تھے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی جان بخشی کیلئے ملک سے فرار کی راہ اختیار کی، حکیم سعید کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے، جبکہ عمران خان کو لیڈر بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کو 2018تک انتظار کرنا پڑا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس نئے مسیحا کیلئے تاریخ ساز مہم کے ذریعے عوام کی نئے سرے سے ذہن سازی کی گئی۔ اس تمام تر جان فشانی کے باوجود2018تک کے انتخابات کے نتائج مرتب کرتے وقت اگر آر ٹی ایس نہ بیٹھتا تو اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ نیا مسیحا بھی قومی سطح کا لیڈر نہ بن پاتا اور نہ ہی وفاق میں اپنی حکومت قائم کر پاتا۔ حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر اس نئے منصوبے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ان کا اپنا ہی تخلیق کردہ سابقہ مسیحا نوازشریف تھا۔
اپریل2022میں جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بنائی گئی عمران حکومت ان کے ہائبرڈ سسٹم کیلئے ایک بوجھ بن گئی تو اس سے گلو خلاصی میں عافیت جانی گئی، لیکن جیسا کہ واقعات نے ثابت کیا یہ کوئی آسان عمل نہ تھا۔ نہ صرف خود فوج کے اندر اس لائحہ عمل کے حوالے سے شدید تقسیم موجود تھی، بلکہ ریاست کے ایک اہم ستون عدلیہ ،اگر مکمل طور پر نہیں تو کم از کم بہت سے اہم فیصلوں کے حوالے سے عمران کی پشتی بان بن چکی تھی۔ پی ٹی آئی کے جن سرگرم کارکنوں کو عمران خان کی حکومت کے دوران نیم فاشسٹ رویوں سے ریاستی سرپرستی سے نوازا گیا ،تاکہ نام نہاد ‘ففتھ جنریشن وار’ میں ریاست اور حکومت کا دفاع کر سکیں، اب ان کی توپوں کا رخ اپنے ہی خالق کی طرف تھا۔
عمران حکومت کے مقابلے میں پی ڈی ایم کا سیٹ اپ قائم کیا گیا وہ عوام کی وسیع تر اکثریت کیلئے کوئی زیادہ قابل قبول نہ تھا۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ ان پارٹیوں کی ماضی کی کارکردگی عوام کے سامنے تھی اور دوسرا یہی وہ لوگ تھے، جن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے چور ڈاکو کا پروپیگنڈہ کر کے اس طرح کی ذہن سازی کی تھی کہ وہ عوام کی وسیع تر اکثریت کیلئے قطعاً ناقابل قبول تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھاری بھرکم حصہ اسی سیٹ اپ کے خلاف تھا اور فوج کے اندر تفریق اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے فوری بعد پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جنگ سیاستدانوں کی لڑائی کم اور ‘کورز’ کی لڑائی زیادہ نظر آرہی تھی۔ اسی لئے اس لڑائی کو ‘پنڈی’ بمقابلہ ‘پشاور’ کے طور پر پکارا جا رہا تھا۔
عمران خان جیسا نرگسیت پسند لیڈر اپنی شہرت اور فوج کے اندر تفریق کی خود فریبی میں اس قدر آگے تک چلا گیا کہ اس کی پارٹی اور وہ خود 9مئی جیسے واقعات کو قابل عمل سمجھ بیٹھا۔ یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کے حامی دھڑے نے اگر9مئی کے واقعات کئے یا کروائے تو اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے دھڑے نے کم از کم ان واقعات کو ہونے دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ عمران خان کی شخصیت کے گرد انہوں نے جو بھوت تخلیق کیا تھا وہ اب ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ جن بوتل سے باہر آچکا تھااور جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ان غیر معمولی حالات کو قابو کرنے کیلئے اتنے ہی غیر معمولی واقعہ کی ضرورت تھی۔ 9مئی کے واقعات نے عمران مخالف اسٹیبلشمنٹ کے دھڑے کو فیصلہ کن وار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آرمی چیف کی تبدیلی کے ساتھ ہی عمران خان بلیک میلنگ کے ایک کارآمد ہتھیار سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ہاتھ جتنے ایک عمران خان کے راز تھے، شاید عمران خان کے پاس بھی جوابی وار کیلئے اتنا ہی مواد موجود تھا۔
بہر حال پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ گرفتاریاں، تشدد، دھونس، دھمکی، لالچ ہر ایک حربہ آزمایہ گیا۔ اس طرح کے حربے معمول کے ادوار میں حالات کو قابومیں رکھنے کا موثر ہتھیار ہوتے ہیں۔تاہم بعض مخصوص معروضی حالات میں یہی چیزیں جدلیاتی طور پر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ کارگر نہیں رہتیں بلکہ استعمال کرنے والوں کیلئے حلق کی ہڈی بن جاتی ہیں۔ یہی مظہر ہمیں 2024ء کے الیکشن میں دیکھنے کو ملا۔ پی ٹی آئی پرتشدد اور اس کی خاموش حمایت راست تناسب سے بڑھتے گئے، اور الیکشن کو ماضی کے طریقوں سے حسب منشا Manageکرنا ممکن نہ رہا۔
بے ہنگم قاتل سیاست کی سماجی و معاشی بنیادیں
موجودہ دور کی ملکی یا عالمی سیاست کا جائزہ لیتے وقت یہ امر از حد ضروری ہو جاتا ہے کہ ان مادی اور معاشی حالات اور کیفیتوں کو سمجھا جائے جن کی بنیاد پر مختلف سیاسی رجحانات ابھر رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین بحرانات کے عہد سے گزر رہا ہے۔ تقریباً گزشتہ 3دہائیوں سے یہ اپنے عروج و زوال(Boom & Bust) کی کلاسیکی طرز سے محروم ہو چکا ہے۔ اس طرز کے مطابق سرمایہ دارانہ عروج ایک خاص مدت تک جاری رہنے کے بعد ملکی یا عالمی سطح پر گراوٹ کا شکار ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ کی گراوٹ کے بعد دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو جاتا تھا۔
تاہم اب سرمایہ داری کے بحران کو عضویاتی(Organic) بحران قرار دیا جارہا ہے۔ اس بات کی وضاحت ایک عام مثال سے کی جا سکتی ہے؛ ایک نوجوان صحت مند آدمی کی زندگی میں طویل یا مختصر مدت کیلئے بیماری کے ادوار بھی آتے ہیں۔ مناسب علاج کے بعد وہ آدمی جب بیماری سے نجات پاتا ہے تو نہ صرف وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ بحال کر لیتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ اس سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے۔ تاہم انسان کا عضویاتی بحران اس کی طویل العمری میں ہوتا ہے، جہاں بیماری کا ایک چھوٹا سا جھٹکا اولاً تو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اگر وہ انسان بیماری سے بچ جائے تو نہ صرف وہ پہلے والی توانائی حاصل نہیں کر پاتا بلکہ صحت کی اس کیفیت میں چلا جاتا ہے، جہاں اس کی زندگی ہر وقت خطرات سے دوچار رہتی ہے۔
سرمایہ داری کے 1990کی دہائی کے عروج کے ادوار میں سے اکثر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ Joblessاور Joylessہیں۔ یعنی معاشی بڑھوتری بھی عام زندگیوں کو نہ تو روزگار فراہم کر سکتی تھی اور نہ ہی ان کی زندگی میں کوئی راحت لا سکتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ 2008کے امریکہ اور یورپی ممالک کے مالیاتی بحران (Credit Crunch) کے بعد عالمی سرمایہ داری تقریباً مسلسل زوال کا شکار ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
اس کیفیت میں عالمی سطح پر جو سیاسی رجحانات ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ دو طرح کے ہیں۔ بعض ممالک میں بائیں بازو کے اصلاح پسند عناصر بائیں بازو کی نعرہ بازی کے ذریعے ابھرے ہیں۔ یہ عنصر خاص کر لاطینی امریکہ کے ملکوں میں زیادہ نمایاں طور پر ابھرا، لیکن دوسرا عنصر عالمی سطح پر زیادہ نمایاں ہے۔ مالی اور معاشی بحران کا شکار درمیانے طبقے کی مایوسی اور نامرادی اس عنصر کو سماجی بنیاد فراہم کرتی ہے اور یہ سیاسی رجحان فسطائی، نیم فسطائی اور انتہائی دائیں بازو کے شاؤنسٹ سیاسی نظریات کی شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، برازیل کا سابق صدر بالسونورو، برطانیہ کا سابق وزیراعظم بورس جانسن، بھارت میں نریندرا مودی ، اسرائیل میں نیتن یاہو اور پاکستان میں عمران خان اس مظہر کی نمایاں شخصیات ہیں۔
ان سیاسی رہنماؤں کا سب سے کارگر اور موثر ہتھیار نفرت کی سیاست (Hate Politics) ہے۔ نفرت کی بنیاد داخلی یا خارجی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔ اس سیاسی مظہر کو یہ سہولت دستیاب ہے کہ وہ کسی جامع سیاسی و معاشی پروگرام کی بجائے ، جس میں عوا م کو درپیش حقیقی مسائل کا کوئی حل پیش کیا جائے، اپنی توجہ نفرت کے داخلی یا خارجی عناصر پر رکھتے ہیں اور اپنے گرد جنونی افراد کے جتھے منظم کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے گرد متحرک زیادہ تر عوامی پرتوں کے بھی کوئی سیاسی یا معاشی مطالبات نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ان کے سیاسی رہنماؤں کا کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
حالیہ انتخابات اور سیاسی پارٹیوں کے پروگرام
عوامی نقطہ نظر سے پاکستان میں سیاست اتنی سطحی اور بے وقعت ہو گئی ہے کہ اکثر سیاسی پارٹیاں کسی قسم کا کوئی انتخابی منشور دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتیں۔ اگر کوئی منشور دیا بھی جائے تو اسے پڑھ کر آدمی کو شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ڈرامے ہیملٹ کا یہ ڈائیلاگ یاد آجاتا ہے۔
Polonius: What do you read, my lord?
Hamlet: Words, words and words
الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پی ٹی آئی کی تمام تر انتخابی مہم سوشل میڈیا کے 3ٹرینڈز کے گرد محو گردش رہی۔ یہ ٹرینڈز تھے: ‘قیدی نمبر804’، ‘نک دا کوکا’ اور ‘وڑ گیا’۔
نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے منشور اولاً تو روز مرہ ضروریات کی حد تک مقید تھے، لیکن بغور جائزہ لینے پریہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ یہ بھی صرف الفاظ، الفاظ اور الفاظ ہی ہیں۔ مثلاً دونوں پارٹیوں نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا منشور دیا لیکن اس وضاحت کے بغیر کہ جس ملک میں آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور زرمبادلہ کی انتہائی قلت کے باعث پہلے سے موجود صنعتیں بند ہو رہی ہیں، وہاں روزگار کے نئے مواقع کس میکنزم کے تحت پیدا ہوں گے؟ آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں 200یا300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو کس طرح بجلی مفت فراہم کی جائے گی، جبکہ ملک کو اپنی تاریخ کے بدترین سرکلر ڈیٹ(گردشی قرضے) کا سامنا ہے۔ اسی طرح منشور کے جس بھی نقطے کا ذرا سا بھی پوسٹ مارٹم کیا جائے، تو وہ الفاظ کا ایک گورکھ دھندا بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ بھی ایسے الفاظ جو انتخابی مہم کے دوران تو سیاسی قائدین کو یاد ہوتے ہیں ،لیکن پارلیمان کے اندر داخل ہوتے ہی وہ ان کے ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔
مسائل کیا ہیں اور حل کیا ہے؟
پاکستان کے معاشی مسائل کو اگر دو لفظوں میں سمویا جائے تو وہ ہیں: داخلی و خارجی قرضوں کی دلدل اور ملکی وسائل پر حکمران اشرافیہ کا مکمل کنٹرول۔ جس ملک میں قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے مزید قرضے لینا پڑیں اور اصل قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہوں، وہاں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طریقہ کار کے تحت اصلاح احوال کی کوئی بھی کوشش کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟
حکمران اشرافیہ کے بارے میں ان ہی کے ایک نمائندے فیلڈ مارشل ایوب خان نے کہا تھا کہ دیگر ملکوں کے سرمایہ داروں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن پاکستانی سرمایہ داروں کو اگر معمولی سا موقع بھی مل جائے تو یہ عوام کا خون تک چوس لیں گے۔ قارئین اندازہ لگائیں کہ جہاں گزشتہ 30سالوں سے یہاں کی اشرافیہ کو ٹریکل ڈاؤن اکنامکس یا نیو لبرل اکنامکس کے تحت معمولی سا نہیں بلکہ بھرپور قسم کا موقع ملا ہو، وہاں اس ملک کی عوام کی موجودہ بدحالی میں حیرت کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ ایوب خان نے تو صرف سرمایہ داروں کا ذکر کیا تھا جبکہ گزشتہ 3دہائیوں سے اس بے انتہاء لوٹ مار میں عالمی سامراج، جاگیردار، فوجی اور سول بیوروکریسی یہاں کے سرمایہ داروں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور ہیں۔
صرف بجلی کے شعبے پر ایک نظر ڈالیں تو اس لوٹ مار کی ناقابل رسائی انتہائیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام24سے28ہزار میگاواٹ تک ہے۔ بجلی کی پیداوار48ہزار میگاواٹ ہے، جبکہ بلنگ ایک لاکھ میگاواٹ سے زیادہ کی جاتی ہے۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو پیداواری صلاحیت کے نام پر اس بجلی کی بھی ادائیگی کی جاتی ہے جو پیدا ہی نہیں ہوتی۔ بجلی کی قیمتیں تو عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں، لیکن لوٹ مار کو مزید تقویت دینے کیلئے عام لوگوں کو اوور بلنگ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی واردات پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے حوالے سے بھی جاری و ساری ہے۔
اشیائے خورونوش سے لے کر دیگر ضروریات زندگی پر جی ایس ٹی کی شکل میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ بالادست طبقات ہر طرح کی ٹیکسیشن سے محفوظ ہیں۔ اس تباہی اور بربادی کے معاشرے پر بے پناہ مضر اثرات ہیں۔ سماجی تانا بانا ٹوٹ رہا ہے۔ عوام پر بے پناہ ٹیکسیشن کے باوجود بجلی، گیس، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صحت، تعلیم اور حفظان صحت جیسی ہر سہولت ناپید ہے۔ شہر ابلتے ہوئے گٹروں کا نظارہ پیش کررہے ہیں۔ شور اور فضائی آلودگی سے دم گھٹتا ہے۔ ٹریفک جام ایک مسلسل اذیت کا دوسرا نام ہے۔ لوڈشیڈنگ سے گرمیوں میں لوگوں کو تندورنما گھروں میں گزر بسر کرنا پڑتی ہے۔ سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ مسلسل عذاب کی مانند ہے۔ اوپر سے افراط زر اور مہنگائی انسانی دماغوں کو مسلسل کھائے جا رہی ہے۔ اس تمام تر ذلت کے باوجود شہری آبادیوں میں مسلسل اور بے ہنگم اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کچی آبادیوں کا ایک لامتناعی سلسلہ ہے جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ دیہات اپنا روایتی آرام و سکون کھو چکے ہیں۔ دھن دولت کی اندھی دوڑ نے دیہات کو بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تاہم مجموعی دیہات آج بھی غربت، ذلت، پسماندگی اور لاچارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ پاکستان پانی اور غذائی قلت کے مسائل سے دوچار ہے۔ نہ صرف شہروں میں پینے کا صاف پانی عوام کو میسر نہیں، دیہاتوں میں چھوٹے کاشتکاروں کو آبپاشی کیلئے بھی پانی میسر نہیں۔ بجلی، ڈیزل، بیج، کھادوں وغیرہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے عام کاشتکاروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 2کروڑ80لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، بلکہ جبری مشقت کی بھٹی کا ایندھن بن رہے ہیں۔ غذائی قلت کے باعث مجموعی طو رپر 40فیصد بچے اور 5سال سے کم عمر کے تقریباً38فیصد بچے نامکمل نشونما کا شکار ہیں۔
اس طرح کے مسائل کی فہرست بہت طویل ہے۔ تاہم مندرجہ بالا چند حقائق اس امر کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ اس ملک کو درپیش مسائل کا حل نیولبرل اکنامکس کے کسی بھی فارمولے کے تحت ممکن نہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ سماجی افق پر موجود کسی بھی پارٹی کے پاس نہ صرف اس کا کوئی متبادل حل نہیں بلکہ وہ اسی نظام کو تھوڑی بہت رد وبدل کیساتھ لاگو کرنے پر متفق بھی ہیں۔ ان کے نزدیک تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب سرمایہ داری کے متبادل کوئی دوسرا نظام باقی ہی نہیں بچا۔
حکمران طبقات چاہے جو مرضی سوچیں، تاریخ کے اپنے قوانین حرکت ہوتے ہیں۔ لینن کے بقول کسی رائج الوقت نظام کے اندر سے انقلاب پھوٹنے کی تین نشانیاں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ حکمران طبقے کیلئے روایتی انداز میں اپنا نظام حکومت جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ دوسری یہ کہ عوام الناس کیلئے پرانی طرز کے مطابق زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تیسری یہ کہ عوام ناقابل برداشت حالات زندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود میدان میں کود پڑتے ہیں اور اپنی زندگیوں کا فیصلہ اپنے ہاتھوں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سرسری نظر میں ہی پہلی دو نشانیاں تو پاکستان کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ عوام رائج الوقت پارٹیوں سے آزادانہ اپنی بقا کا ایجنڈا لے کر کب میدان عمل میں کودتے ہیں، اس کا انتظار باقی ہے۔ تاہم شاید ایسا ہماری توقعات سے بہت جلد ہو جائے۔
الیکشن کے بعد کا منظر نامہ جتنا دلچسپ ہے، اتنا ہی مضحکہ خیز بھی ہے۔ کل کی دشمنیاں دوستیوں میں بدل رہی ہیں۔ لگ بھگ گزشتہ10سالوں سے ایک دوسرے کے جانی دشمنوں ، یعنی پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی دوستی کی پینگیں اور پی پی کا حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنے کا خواب(وہ بھی جمہوریت کے بہترین مفاد میں) کسی غیر حقیقی دنیا کے افسانے لگتے ہیں۔ ابھی ن لیگ بھی پی پی پی کی شمولیت کے بغیر حکومت بنانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ اس سے حالات کی تلخی اور سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقے کیلئے حکمرانی کرنا کتنا دشوار ہو گیا ہے۔ حالیہ الیکشن کے بعد اگر وثوق کے ساتھ کسی چیز کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے تو وہ ہے سیاسی، معاشی اور سماجی عدم استحکام۔حکمران طبقہ سنگینوں کا تخت تو بنا سکتا ہے لیکن اس پر بیٹھ کر حکمرانی کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔
گزشتہ76سالوں کی تاریخ کا اگر موجودہ عہد سے تقابل کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہی سہی نسبتاً بہتر منصوبہ بندی، حکمت عملی اور حکمران طبقے کی طرف سے اپنے اوپر چند قدغنیں عائد کرنے سے پاکستان کی صورتحال آج کی درپیش صورتحال سے کافی حد تک بہتر ہو سکتی تھی۔ حتیٰ کہ آج سے چند سال پہلے تک گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز کی نوعیت وہ نہیں تھی جو آج ہے۔ اب ان تبدیلیوں کے اثرات کرہ ارض اور بنی نوع انسان پر مرتب ہونا شروع ہوئے ہیں، لیکن یہ ابھی بھی محض شروعات ہے۔ ان چیلنجز کی حقیقی بربادیاں بربادیوں کی کس انتہاء کو چھوئیں گی، اس کی حقیقی تصویر کشی ناممکن ہے۔
اگر نسبتاً بہتر حالات میں حکمران طبقات اس ملک اور معاشرے کو ایک ناکام ریاست ، معاشرے اور مقام پر لے گئے ہیں ،تو اب بدترین حالات میں انتہائی سنگین چیلنجز کے ہوتے ہوئے ایک ناکام ریاست اور حکمران اشرافیہ سے بہتری کی کوئی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ محنت کش عوام کے پاس اس نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، ملکی وسائل پر سامراج اور اشرافیہ کا قبضہ چھڑوانے اور منصوبہ بند معیشت کے ذریعے اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے علاوہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دوسرا ہر راستہ سماج کو بربریت کی اندھی کھائی کی طرف لے جاتا ہے۔ حکمرانوں کے نظام کو چیلنج کئے بغیر اور اسکا متبادل سیاسی اور معاشی پروگرام دیئے بغیر ہر بغاوت کا انت انہی حکمرانوں کی چوکھٹ پر ہوتا ہے اور ایسے ہر انجام والی بغاوت میں عوام ہار جاتے ہیں اور حکمران جیت جاتے ہیں۔