فائزہ خان
آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی متروکیت کو پہنچا چکا ہے اورہمیں بڑی بڑی عالمی طاقتیں بھی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری اپنے گھر میں بڑا محترم اور مقدس عقب دھرتی ہے جبکہ اپنی نوآبادیات میں اصل چہرہ دکھاتی ہے۔
2008کے مالیاتی بحران کے بعدسرمایہ داری کے گھر(وہ ممالک جنہوں نے سامراجیت کے ذریعے 200 سال تک تیسری دنیا کی دولت لوٹی)میں معاشی زوال پذیری کے باعث مزدوروں پر کام کے اوقات کار میں اضافے اور پینشن اصطلاحات جیسے حملے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہاں خود ایسی حکومتیں بن رہی ہیں جن کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے سوائے مہاجرین کے خلاف قانون سازی کے غیر انسانی نعروں کے کچھ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ان نعروں کی وجہ سے الیکشن جیت رہے ہیں۔جرمنی،برطانیہ،فرانس اور ارجنٹائن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار کے لیے صاف ہوتا راستہ بھی اس متروکیت کو واضع کر رہا ہے۔
دوسری طرف وہ ممالک جہاں سرمایہ داری اپنے تاریخی فرائض (سیکولر بنیادوں پر جدید قومی ریاست کی تشکیل، صنعت کاری، شہری آباد کاری)پورے کرنے میں ناکام رہی وہاں یہ سوالات(قومی و صنفی) زیادہ شدت سے ابھر رہے ہیں۔پاکستان جیسی طفیلی ریاست میں کچھ غیر معمولی واقعات اس عرصے میں رونما ہوئے ہیں جن کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ پچھلے 6 سال سے پاکستان مختلف تحریکوں کی لپیٹ میں ہے،جو کہ بنتی ٹوٹتی،چھانٹی کرتے اور سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ پی ٹی ایم کی تحریک کے بعد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر نے گزشتہ کچھ سالوں نے ایک تاریخی جست لگائی ہے۔مذہب کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں ضیاء آمریت کے دور میں مذہبی جنونیت کو ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیاتھا۔ تاہم جموں کشمیر کے اندر گزشتہ عرصے میں خواتین کے متحرک کردار نے یہ واضح کر دیا کہ یہ ایک غیر معمولی عہد ہے،جہاں عوام شعوری طور پر ایک لڑائی لڑ رہے ہیں۔
خواتین کے عالمی دن پر جہاں ہم تاریخ چھانتے تھے،اس بار عورتوں نے عالمی دن سے پہلے ایک نئی تاریخ لکھی ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں وسائل کی نوآبادیاتی لوٹ ماراور نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک پر جب ریاست نے کریک ڈاؤن کیا اور احتجاجی دھرنوں کو اکھاڑ کر مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، تو خواتین میدان میں نکلیں اور انہوں نے دھرنے بحال کر کے اس خطے میں عوامی احتجاج کی سیاست میں اپنا پہلا آزادانہ اظہار کیا۔
تمام تر ریاستی پروپیگنڈے، پابندیوں اورمذہبی انتہاء پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود خطے کے تمام اضلاع اور چھوٹے بڑے شہروں، بازاروں اور قصبوں نے خواتین نے سڑکوں پر آکر آزادانہ احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کئے۔ یہ اس خطے میں رونما ہونے والے غیر معمولی واقعات تھے۔ خواتین نے واضح کیا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کی اس لڑائی میں محنت کش مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
جب ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ خواتین تربت سے لانگ مارچ کر کے دارالحکومت اسلام آباد آئیں تو ریاست نے لاٹھی چارج، ٹھنڈے پانی کے چھڑکاؤ اور گرفتاریوں سے انکا استقبال کیا۔ تاہم خواتین نے جس جرأت اور بہادری سے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا اور کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد ریاست کو شکست دے کر اسلام آباد پریس کلب میں اپنے ہدف پر دھرنا قائم کیا، یہ بھی اس خطے کی ایک نئی تاریخ ہے۔ بلوچ خواتین کی قیادت میں آج پورا بلوچستان ہمیں سراپا احتجاج نظر آتا ہے۔
مزاحمتی سیاست میں خواتین کی بھرپور شمولیت نے خطے کی سیاست میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔یہ غیر معمولی واقعات نہ صرف پاکستان کے پسماندہ اور زیر انتظام علاقوں میں عوام کو سیاسی میدان میں متحرک کرنے کا باعث بن رہے ہیں، بلکہ شہری علاقوں اور مرکز پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
رواں سال محنت کش خواتین کا عالمی دن جہاں خواتین کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ پدر شاہی اور سرمایہ دارانہ جبر کے خاتمے کیلئے جدوجہد کو منظم کیا جائے، وہیں خواتین کے سامنے جموں کشمیر اور بلوچستان کی خواتین نے جدوجہد کو آگے بڑھانے کا راستہ بھی متعین کر دیا ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے، جب اس خطے کی خواتین محض مظلوم قوموں کی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے سے کہیں آگے بڑھتے ہوئے اس خطے کے مظلوم و محکوم عوام کو سرمایہ دارانہ جبر اور ہر طرح کی محکومی سے نجات کی مشترکہ جدوجہد میں متحرک نظر آئیں گی۔