دنیا

’پنک ٹیکس‘ صنفی جبر کا ایک رخ

سمعیہ بتول

پنک ٹیکس کوئی ظاہری ٹیکس نہیں جو حکومت کی طرف سے عورتوں سے وصول کیا جاتا ہے،بلکہ یہ ایک ایسی وصولی ہے،جو مخصوص قسم کی اشیا ء کے بدلے میں عورتوں سے اضافی طور پرہتھیائی جاتی ہے۔اس کو عمومی الفاظ میں ’صنفی امتیازی قیمت‘کہا جاتا ہے۔

ایک اور تعریف کے مطابق کوئی بھی کمپنی دو طرح کی اشیاء تیار کرتی ہے،جس میں مردوں کے لیے تیار کی گئی اشیا کو’بلیو پراڈکٹ‘اور خواتین کے لیے تیار کی جانے والی اشیاء کو’پنک پراڈکٹ‘کا نام دیا جاتا ہے۔جب کوئی بھی کمپنی بلیو پراڈکٹ کی نسبت پنک پراڈکٹس کو دوگنی یا اضافی قیمت میں بیچتی ہے تواس اضافی قیمت کو’پنک ٹیکس‘کہا جاتاہے۔

ایک اور تعریف کے مطابق’پنک ٹیکس‘عورت اور مرد کے صنفی امتیاز کی وجہ سے طے کی جانے والی قیمت ہے۔

یہ ٹیکس کیوں وصول کیا جاتا ہے؟

مارکٹنگ پڑھنے والے اطہر کا کہناہے کہ عام طور پہ خواتین اس قسم کے ٹیکس سے آگاہی نہیں رکھتیں۔چونکہ مردوں کی اشیاء کی پیکنک،پیکجنگ اور تشہیر بہت کم ہوتی ہے۔ اسکی نسبت خواتین نفیس قسم کی اشیاء پسند کرتی ہیں۔اس لیے انکی پیکنک،پیکجنگ اور تشہیر بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس لیے بھی خواتین سے پیسے زیادہ وصول کیے جاتے ہیں۔

دوسری وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سرمائے کی ہوس میں کمپنیاں اس ٹیکس کی بناء پر منافع کماتی ہیں،جس میں وہ صنفی امتیاز کی بناء پر پیسے وصول کرتی ہیں۔

ایک خاتون،جو سرکاری ٹیچر ہیں،جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس ٹیکس کا نام پہلی بار سن رہی ہیں،لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بچیوں کی اشیا ء بچوں کی نسبت مہنگی ہیں۔اس لیے وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی ویسی اشیا ء لیتی ہیں جو وہ بیٹے کے لیے خریدتی ہیں،جن میں زیادہ تر کپڑے شرٹس،جینز، کھلونے اور دیگر بچوں کی اشیا ء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔اس پہ سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔

یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے جس پر محققین1990 سے کام کررہے ہیں۔

1992 میں نیویارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف کنزیومر افیرز(ڈی۔سی۔اے)نے ایک تحقیق سامنے لائی کہ’صنفی امتیازی قیمت‘کی وجہ سے خواتین سے ڈرائی کلین،ہیر سیلون،لانڈریز وغیرہ کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ قیمت لی جاتی ہے۔

1994 میں ’کیلیفورنیا اسمبلی آفس آف ریسرچ‘کی تحقیق کے مطابق دنیا کے 5 بڑے شہروں کے 64 فیصد سٹور مردوں کی کاٹن شرٹ کی نسبت خواتین کی کاٹن شرٹ کو دھونے کے زیادہ پیسے لیتی ہیں۔جبکہ کیلیفورنیا میں خواتین صرف ہیر کٹ کیلئے 5 ڈالر زیادہ ادا کرتی ہیں۔

2011 میں سینٹرل فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین نے رپورٹ شائع کی کہ 100 میں سے 85 فیصدہیر سیلون ایک نارمل بنیادی ہیر کٹ کے لیے خواتین سے مردوں کی نسبت54 فیصد زیادہ معاوضہ وصول کرتا ہے۔

2015 میں نیویارک کے شہر میں ڈی۔سی۔اے نے 400 اشیا ء کا جائزہ لیا۔جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ خواتین ایک جیسی اشیا ء ہونے کے باوجود زیادہ قیمت ادا کرتی ہیں۔2015 میں ہی اس مسئلے کو اس وقت سب سے توجہ بھی ملی تھی،جب نیویارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف کنزیومر افیئر نے ایک رپورٹ پیش کی تھی،جس میں 794 اشیا ء کا جائزہ لیا گیا تھا۔ جائزہ کے مطابق خواتین سے تقریبا تمام پراڈکٹس پہ زیادہ قیمت لی جاتی ہے۔

2018 میں یوایس گورنمنٹ اکاونٹبلٹی آفس(جی۔اے۔او)نے 10 ذاتی اشیا ء کی قیمتوں کی جانچ کی اور یہ نتیجہ نکالا کہ خواتین زیادہ قیمت ادا کرتی ہیں۔

ایک امریکی تحقیق کے مطابق خواتین ایک جیسی مصنوعات پہ مردوں کی نسبت 7 فیصد زیادہ ٹیکس دیتی ہیں۔

اس کے خاتمے کی کاوشیں

1996 میں کیلیفورنیا کے گورنر’پیٹ ولسن‘نے پنک ٹیکس کے خلاف جینڈرٹیکس ریپیل ایکٹ آف 1995 دائر کیا۔جس کے مطابق ایک جیسی مصنوعات پہ ایک جیسی قیمت لی جانی چاہیے۔ 1998 میں نیویارک کے مئیرریوٹی گیلینینے ایک بل پاس کیا،جس کے مطابق تمام اشیاء سے پنک ٹیکس کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا گیا اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

2016 میں نیبراسکا،ورجینیا اور الاسکا نے بھی اس ٹیکس کو ختم کرنے کے لیے بل پاس کیے۔2021 میں پنک ٹیکس ریپیل ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنانے کی کوشش کی گئی۔2024 میں بھی کچھ جگہوں پراس ٹیکس کو ختم کرنے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں،جن میں کینٹکی،میسوری اور شمالی کیرولینیا شامل ہیں۔تاہم ابھی تک کوئی بل یا قانون نہیں بنایا جاسکا جس سے اس ٹیکس کا خاتمہ ممکن ہو۔

پنک ٹیکس کا پیسہ کہاں جاتا ہے؟

پنک ٹیکس کا پیسہ وصول ہونے کے بعد حکومتی خزانے میں نہیں جاتا،بلکہ یہ کمپنی کے مالک کے اکاونٹ میں جاتا ہے، جس سے اس کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ ماہرین اقتصادیات مردوخواتین کارکنوں کی اجرتوں میں دونوں کا کام اور اس کی نوعیت برابر ہونے کے باوجود پائے جانے والے فرق کے لیے’جینڈر ویج گیپ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔صنفی بنیاد کا یہ فرق مغربی ترقی یافتہ ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں بہت ہی کم صارف اپنے حقوق سے آگاہی رکھتے ہیں۔

یہ صنفی فرق زیادہ تر خواتین کی دماغی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق46 فیصد خواتین نے سال 2022 میں دماغی صحت متاثر ہونے کی رپورٹ پیش کی۔جبکہ مردوں کی تعداد نہایت کم ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts