امین شاہ
طبقاتی نظام کی تباہ کاریوں، ذلتوں اور محرومیوں نے انسانی نفسیات پر جو اثرات مرتب کئے ہیں اس مریضانہ رویوں کی وجہ سے انسانوں کے ہاتھوں زندگی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں۔ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی بات تو دور کی ہے محنت کش طبقہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم نظر ہے اورانسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال ہو رہا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں مرد کا مرد کے ہاتھوں، عورت کا مرد کے ہاتھوں، مرد کا عورت کے ہاتھوں اور عورت کا عورت کے ہاتھوں استحصال دیکھتے ہیں، یہ استحصال طبقاتی بنیاد پر بھی ہو رہا ہے اور ایک طبقے کے افرادکے درمیان کبھی انفرادی اور کبھی اجتماعی طور پر بھی ہوتا ہے۔
یہ اس ملکیتی نظام کی عطاکردہ خود غرضانہ اور منافقانہ ذہنیت کی خاصیتیں ہیں جنہوں نے انسان کو کائنات کی تسخیر اور دنیا کو رہنے کے لئے خوبصورت جگہ بنانے کی بجائی ساری زندگی چھوٹے چھوٹے مقاصد کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے نظام میں حکمران طبقہ محنت کش طبقے پر اپنی مسلط کردہ ذہنیت سے حکمرانی کرتا ہے اور محنت کش طبقہ بھی لاشعوری طورپر ان لوگوں کی ذہنیت قبول کرکے اپنے طبقے اوریوں اپنے آپ کے خلاف عمل کرتا ہوا نظر آتا ہے، مگر جب محنت کش طبقہ سیاسی شعورحاصل کرتا ہے تو اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جس طرح ممکن ہوتا ہے اس نظام کے خلاف سیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے جس نظام نے اس سے اس کے حقوق چھینے ہوتے ہیں۔
طبقاتی نظام میں جب پوری ریاستی مشینری عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر اپنے حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کرتی ہے، اس نظام کے حواری لکھاری بھی آرٹ اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر حکمران طبقے کی سوچ سماج پر مسلط کرنے میں مددگارہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری تلے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے علمبردار بن کر دکانداری کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے لوگوں کو استحصال کی بنیادیں سمجھ کر سیاسی نظریئے سے لیس ہو کر جبر کی ہر صورت کے خلاف لڑنا ہے۔ ہم اس جبر کے خلاف برسرپیکار ہیں اور رہیں گے۔ بقول کامریڈ لال خان ”سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی“۔