محمد اکبر نوتزئی
از میر نصیر خان احمد زئی قمبرانی بلوچ، پبلشر: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
بلوچوں اور ان کی تاریخ سے متعلق،بالخصوص نوآبادیاتی دور میں،مقامی اور غیر ملکی مصنفین کی لکھی گئی کتابوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بلوچ تاریخ خطے کی ہر دوسری قوم کی طرح وسیع اور قدیم ہے۔ قلات کے نام سے بلوچستان کی اپنی ایک ریاست تھی،جس پر انگریزوں نے 1839ء میں حملہ کیا تھا۔ تب سے قلات،جو کہ موجودہ بلوچستان کے پورے علاقے پر محیط تھا، انگریزوں کے زیر تسلط آگیا۔ یقینایہ سب 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت بدل گیا تھا لیکن آج بلوچستان کا اصل خطہ مکمل طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ یہ تین ممالک یعنی پاکستان، ایران اور افغانستان میں پھیلا ہوا ہے۔
تاہم حال ہی میں شائع ہونے والی میر نصیر خان احمد زئی قمبرانی بلوچ کی ایک کتاب’بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ‘(ہسٹری آف بلوچ اینڈ بلوچستان)، 17ویں صدی میں ریاست قلات کے قیام سے بھی پہلے کی بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب 8جلدوں پر مشتمل وسیع سیریز ’تاریخِ بلوچ و بلوچستان‘سے ماخوذ ہے،جسے میر نصیر خان احمد زئی قمبرانی (1919-2013) نے 1988 میں اردو میں لکھا تھا۔ موجودہ اشاعت مذکورہ 8جلدوں میں سے ایک مختصر شکل میں فصاحت کے ساتھ کیا گیا ترجمہ ہے۔
میر نصیر خان ایک بہت اعلیٰ پائے کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق ریاست قلات کے احمد زئی قبیلے سے تھا۔ یہ قبیلہ 1666 میں ریاست قلات کے قیام کے بعد سے ریاست کا حکمران تھا۔ تقسیم کے بعد وہ وہاں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی اور براہوی زبانوں کے پروفیسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بلوچوں کی نوآبادیاتی تاریخ کے بعض حصوں اور ساتھ ہی ساتھ برصغیر کی تقسیم کے بعد بلوچستان کے پاکستان کا حصہ بننے کے عمل کا خود مشاہدہ کیا تھا، جس کے بارے میں انہوں نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے۔
بلاشبہ یہ پڑھنے کیلئے ایک مکمل تصنیف ہے، جوبلوچ تاریخ کے واقعات سے آگاہی دیتی ہے۔ دیگر چیزوں کے علاوہ، جیسے کہ مصنف کتاب کے ابتدائی ابواب میں اپنے لوگوں (قلات کے احمد زئی قبیلہ)کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہیں، ان مقامی اور غیر ملکی مصنفین کے بارے بھی میں بات کرتے ہیں جن کی بلوچوں اور ان کی تاریخ کے بارے میں کتابیں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہی ہیں۔وہ بلوچ عوام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہنے سے لمحہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میر نصیر خان کی کتاب میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن کی کوئی خواہش کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بلوچوں کی نسل، تاریخ اور زمین کے بارے میں لکھنے کے علاوہ کتاب میں لوگوں کے بارے میں دلچسپ مذہبی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچ قدیم زمانے میں زرتشتی تھے، عربوں کی حکومت کے وقت انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ میر نصیر خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”یہ ایک ریکارڈ شدہ حقیقت ہے کہ بلوچ قبائل نے حضرت عمر کے وقت اسلام قبول کیا تھا۔“
تاہم اس سے پہلے وہ ایک معلوماتی قصہ منظر عام پر لاتے ہیں کہ”امام حسین کی شہادت کے بعد بلوچ (جو اس وقت عکراد بلوچ کے نام سے مشہور تھے) یزید سے نفرت کرنے لگے۔ تمام قبائل نے ماتمی مجلسیں منعقد کیں،جن میں امام حسین کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی۔“
تاریخی طور پر بھی آج ہی کی طرح بلوچستان کی پوزیشن تذویراتی لحاظ سے بہت اہم رہی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ عرب فاتح بلوچوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ قدیم زمانے میں ان کے ساتھ فوجی اتحاد ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد سے یا اس سے پہلے بھی بلوچستان کی سرزمین فوجی تصادم سے محفوظ نہیں رہی۔ اسی تذویراتی حساب کتاب نے چین کو گوادر کی طرف راغب کیا ہے، جو خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
دیگر تفصیلات کے علاوہ میر نصیر خان نے ریاست قلات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے، جو کہ ایران اور افغانستان کے کچھ حصوں سے لیکر سندھ تک اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ پورے بلوچستان تک پھیلی ہوئی تھی،اور 18ویں صدی کے وسط میں احمد زئی کے دور میں اپنے عروج پر تھی۔ واضح رہے کہ مصنف خود ریاست قلات کے آخری حکمران میر احمد یار خان (1933-1955 تک خان آف قلات) کے داماد اور کزن ہیں۔ میر احمد یار (وفات 1979) نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’انسائیڈ بلوچستان‘ ہے۔ یہ کتاب ان کی سیاسی سوانح عمری ہے۔
مزید یہ کہ میر نصیر خان،خان آف قلات میر خداداد خان (1857-1863 اور پھر دوبارہ 1864-1893) کے پوتے ہیں۔ قلات کے حکمران خاندان نے اس علاقے میں تقریباً تین صدیوں تک حکومت کی۔
قلات خاندان کا حصہ ہونے کے علاوہ مصنف نے 1948 میں ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق، 1952 میں بلوچستان اسٹیٹس یونین کے قیام، 1955 میں ون یونٹ کے تحت پاکستان کے ساتھ انضمام اور پھر 1970میں الگ صوبہ بلوچستان کی تشکیل کو بھی دیکھاہے۔
اس خطے میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ریاست قلات اپنی شان و شوکت کھو بیٹھی اور محکوم ہو گئی۔ 1839 میں انگریزوں نے ریاست قلات پر حملہ کیا۔ نوآبادیاتی طاقت کے ہاتھوں ہار ماننے اور ہتھیار پھینکنے کی بجائے اس وقت کے خان آف قلات شہید میر محراب خان احمد زئی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔
میر محراب خان کی بہادری بلوچ کاز کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے مادر وطن کو قربان کرنے کی بجائے اس کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔
پہلی افغان جنگ (1838-1842) کے دوران انگریز افغانستان کے راستے بڑھتے ہوئے روسی خطرے کے بارے میں خوف زدہ تھے چنانچہ وہ مصنف میر نصیر خان کے الفاظ میں ”افغانستان کے تخت پر ایک کٹھ پتلی“ چاہتے تھے۔ اس کو ممکن بنانے کے لیے وہ بلوچستان میں بھی یہی چاہتے تھے کیونکہ ان دنوں فارس بھی روس کے ساتھ کھڑا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ”جب انگریزوں نے قلات میں امیر محراب پر حملہ کرنے اور ان کی جگہ میر شاہنواز کو لانے کی دھمکی دی تو ایک بھی سردار ان کی مدد کو نہیں آیا۔ سب سے پہلے انگریزوں نے امیر کو ایک اشتعال انگیز خط بھیجا تاکہ انہیں ان پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا جائے، لیکن امیر محراب خاموش اور پرامن رہے۔ نتیجتاً برطانوی فوج نے 13 نومبر 1839 کو قلات پر اچانک اور بلا اشتعال حملہ کیا۔ امیر محراب کو شکست ہوئی اوروہ مارے گئے۔ انگریزوں نے امیر شاہنواز کو بلوچستان کے مسند پر بٹھا دیا۔“
اس کے بعد ریاست قلات اپنی شان و شوکت کھو بیٹھی، حالانکہ امیر محراب کے بیٹے میر نصیر خان دوم نے بعد میں اس وقت تخت حاصل کیا،جب بلوچستان میں نوآبادیاتی حکومت اپنے خیمے پھیلا چکی تھی۔ اس کے بعد ایک کے بعد دوسری ڈویلپمنٹ استعماری طاقت کے ہاتھ مضبوط کرتی رہی۔
اس وقت بلوچستان میں برطانوی پالیسی کے حوالے سے دو نظریات تھے۔ میر نصیر خان ان پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”سندھ میں برطانوی حکام بلوچستان کی حیثیت کو بفر اسٹیٹ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے تھے، لیکن پنجاب والوں کا اختلاف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ بلوچستان کے پاس ساحلی پٹی ہے اور اگر روس نواز حکمران افغانستان میں اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا (روس کے لیے) بہت آسان ہو جائے گا۔“
نتیجے کے طور پر بھارت میں مرکزی حکومت نے اپنے پنجاب کے عہدیداروں کے خیالات کا ساتھ دیا تاکہ بلوچستان کی آزاد حیثیت کو ختم کر کے اس کا الحاق کیا جا سکے۔بات یہیں نہیں رکی، بلوچستان کو مزید ایران اور افغانستان کے درمیان گولڈ اسمتھ لائن (1871) اور میک موہن لائن (1896) کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔
کتاب کے آخری ابواب میں مصنف نے ریاست قلات کے آخری حکمران میر احمد یار خان احمد زئی کے بارے میں بات کی ہے۔ انتہائی دلچسپی کے دیگر موضوعات کے علاوہ وہ بلوچستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ تاہم مصنف کچھ طریقوں سے میر احمد یار خان کے حق میں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے بڑے بھائی میر اسلم جان احمد زئی کے خرچ پر ریاست قلات کے حکمران بنے۔ اس طرح کے دیگر واقعات کے علاوہ اس کا ذکر تک نہیں ہے۔
اس کے باوجود مصنف نے اپنی معلوماتی اور مفصل کتاب کے ذریعے بلوچستان اور بلوچوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ اور مختصر انگریزی ترجمہ یقینی طور پر اس علاقے میں دلچسپی رکھنے والے وسیع تر سامعین کیلئے زیادہ قابل رسائی بنائے گا۔ ان کیلئے یہ واقعی پڑھنا بہت ضروری ہے۔