(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
موجودہ عالمی صورتحال کا اہم خاصہ سامراجی تناؤ اور تنازعات کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔ جس سے بڑی طاقتوں کے مابین ٹکراؤ، علاقائی جنگوں اور تابع اور نیم نو آبادیاتی اقوام کے خلاف کے سامراجی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت (سپر پاور) امریکہ کی کمزوری، چین کا معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھار اور2008ء کے بحران کے بعد قدر زائد کی حصہ داری پر عالمی تنازعہ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ لیکن اس بالا دستی کے نتیجے میں دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد کے اثرات اسے تنہا ہی جذب کرنا پڑے جس سے امریکہ کی شکست و ریخت میں تیزی آئی۔ عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی بے بسی اور شکست نے امریکہ کو عالمی طور پر بہت کمزور کیا ہے۔ اس سے چھوٹی سامراجی طاقتوں کی مداخلت کی گنجائش بڑھ گئی ہے اور چین ایک عالمی مد مقابل کے طور پر ابھر اہے۔ بلا شبہ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت یا سپرپاور ہے۔ لیکن دوسری طاقتوں کی جانب سے امریکہ کی نسبتاً کمزور حالت کے نتیجے میں جنم لینے والا خلا پر کرنے کی کوششوں اور امریکہ کی اپنی بالا دستی کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کی مسلسل کاروائیوں سے سامراجی تنازعات شدید ہو رہے ہیں۔ یوکرائن میں جنگ، افریقہ کے ساحل (Sahel) خطے میں بغاوتیں اور فوجی کُو اوربالخصوص اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کا حالیہ قتل عام اور جارحیت اسی عمل کے شدید ترین اظہار ہیں۔
یوکرائن کے معاملے میں ہم نے دیکھا ہے کہ خطے کی بڑی طاقت روس‘ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کھو جانے والے علاقے اور اثر و رسوخ پھر سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکہ اور نیٹو اپنے حلقہ اثر میں ہوئی توسیع برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یوکرائن پر روسی حملے سے سامراجوں کا عالمی تناؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ علاقائی جنگ دو سال سے کسی فیصلہ کن پیش رفت کے بغیر جاری ہے اور یوکرائن کے عوام اپنی جائز مزاحمت کر رہے ہیں۔ افریقہ کے ساحل کے خطے کے ممالک میں سامراج مخالف عوامی ابھار کے نتیجے میں فرانسیسی سامراج کی کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف کئی فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں۔ جن میں گنی، برکینافاسو، مالی، نائیجراور گبون کے ساتھ ساتھ سوڈان بھی شامل ہے۔ یہ مغربی سامراج پر ایک بڑا وار ہے جو اس خطے سے سٹریٹجک اہمیت کے حامل معدنی وسائل کی لوٹ مار کرتا ہے۔ روس یہاں پر ایک متبادل طاقت کے طور پر گھسنے کی کوشش کر رہاہے اور کرائے کے فوجی گروہوں مثلاً واگنر گروپ کے ذریعے فوجی مداخلت کر رہا ہے۔ ان گروہوں کے ان نئے افریقی لیڈروں اور حکومتوں کے ساتھ قریبی اتحاد اور کاروباری مراسم ہیں۔ چین بھی افریقہ میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کرتا چلا آ رہا ہے اور اب یورپی سامراج کی پسپائی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی جارحیت اور قتل عام نے بھی سامراجی تنازعات کی نہج یا کیفیت کو بہت تبدیل کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مدد اور اس کی جارحیت کو محدود کرنے کی ضرورت سے یوکرائن کے لیے اس کی حمایت میں یکدم کمی آ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہاز بردار بحری بیڑوں اور فوجیوں کی مشرق وسطیٰ منتقلی سے بحرالکاہل میں اس کی عالمی ترجیحات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ دوسری جانب چین اور روس نے فلسطین کے دفاع میں انگلی تک نہیں اٹھائی۔ اسرائیل سے ان کے سیاسی اور معاشی معاہدے قائم ہیں اور وہ امریکہ کی ’توجہ بٹ جانے‘ سے فائدہ اٹھانا چاہ ر ہے ہیں۔ اس سے ایک مرتبہ پھر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور روس مغربی سامراج کے ترقی پسند متبادل ہرگز نہیں ہیں۔
امریکہ اور چین عالمی کشمکش میں بڑے حریف ہیں۔ معاشی میدان میں وہ پہلے ہی برسرپیکار ہیں۔ چین بہت عرصہ قبل ہی امریکہ کی بجائے یورپی یونین، افریقہ اور جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شریک بن چکا ہے۔ حالیہ عرصے میں چین جدید ترین ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سبقت لے جانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال مصنوعی ذہانت کا شعبہ ہے۔
چین اپنی معاشی ترقی کو ایک عالمی طاقت بننے کی حکمت عملی پر استوار کر رہا ہے۔ اس کی جانب سے نئی شاہراہِ ریشم (نیو سلک روڈ) کے پرا جیکٹ کے تحت درجنوں ممالک میں انفراسٹرکچر میں دیو ہیکل سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، آزاد تجارت کے معاہدے ہو رہے ہیں، بڑی مالیت کے قرضے دئیے جا رہے ہیں جن میں پھر بندر گاہیں اور ملکی خودمختاری کے دیگر عناصر گروی رکھے جارہے ہیں اور چین پہلی مرتبہ ملک سے باہر فوجی اڈے قائم کر رہا ہے۔
دوسری جانب امریکہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ دور کی نسبتاً پسپائی کے بعد بائیڈن کی صدارت میں امریکہ اپنی عالمی بالادستی از سر نو قائم کرنے کی جارحانہ کوشش میں سرگرم ہے۔
تائیوان کا حصول اوربحیرہ جنوبی چین (ساؤتھ چائنا سی) پر کنٹرو ل چین کے توسیعی منصوبے کے بہت اہم حصے ہیں۔ یہ سارے عوامل مل کے چین اور امریکہ (اور امریکہ کے اتحادیوں) کے درمیان تناؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ فی الوقت اس تنازعے کو بڑھاوا دینا دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
بائیں بازو کے کچھ حصے بڑھتے ہوئے سامراجی تناؤ کو نظر انداز کرتے ہیں یا بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ اس طرح وہ ان سامراجی تنازعات کے پھٹ پڑنے کی صورت میں انہیں سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ لوگ سامراجی تنازعے کو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کرتے ہیں۔ جیسے تیسری عالمی جنگ بس شروع ہونے کو ہے یا ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ سوچ عموماً کیمپسٹ (Campist) رجحانات میں پائی جاتی ہے جو ایک سامراجی کیمپ کو دوسرے کے مقابلے میں کم برا سمجھتے ہیں۔ یا پھر یوکرائن جیسے علاقائی تنازعات میں شکست خوردی (Defeatism) کی غلط فہمی کو پروان چڑھاتے ہیں جس کا فائدہ بالآخر روسی سامراج کو ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فوری طور پر یا مستقبل قریب میں عالمی جنگ کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ تاہم سامراجی دھڑوں کے درمیان تناؤ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی طاقت ابھی خود کو ایک عالمی جنگ کے لیے تیار نہیں سمجھتی۔ اور نہ ہی پہلے سے موجود بلاک اور اتحاد مستقل ہیں۔ جیسا کہ یوکرائن کی جنگ سے واضح ہے۔ جس میں امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تضادات عیاں ہوئے ہیں۔ یورپ کے روس اور چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور سیاسی تعلقات ہیں۔ یعنی نیٹو کے اتحادی ممالک کے مفادات بھی یکسر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یورپ کے اندر بھی متضاد مفادات پائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ بریگزٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح ’جی 20‘ اور ’برکس‘ (BRICS) ممالک کے درمیان بھی تضادات پائے جاتے ہیں۔ کئی مقامی طاقتیں بھی ابھر رہی ہیں جو امریکہ اور چین سے کسی حد تک آزادانہ طور پر کاروائیاں کرتی ہیں۔
اگرچہ ان میں سے آج کوئی بھی بڑی جنگ کی طرز کا عالمی ٹکراؤ نہیں چاہتا لیکن موجودہ بحران میں قدر زائد میں حصہ داری کی حقیقی لڑائی تنازعات کو بڑھا رہی ہے۔ اگرچہ فوری تناظر عالمی طاقتوں کے درمیان کھلے فوجی ٹکراؤ کا نہیں لیکن موجودہ صورتحال کے مستقبل میں اس جانب بڑھنے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے کہ عمومی طور پر عدم استحکام غالب رہے گا اور مقامی یا علاقائی جنگیں اور تنازعات شدید ہوں گے۔جبکہ قومی حق خودارادیت کے دفاع کی جدوجہد بھی تیز ہو گی۔