لاہور(جدوجہد رپورٹ) بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کیلئے ’واشنگ مشین‘ کی طرح کام کر رہی ہے۔
’انڈین ایکسپریس‘کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014سے مرکزی ایجنسیوں کی تحقیقات کی زد میں شامل 25اپوزیشن رہنما بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 25رہنماؤں میں سے 23کو ان مقدمات میں راحت مل چکی ہے۔ 3رہنما ایسے ہیں جن کے خلاف درج کیس مکمل طور پر بند کر دیئے گئے ہیں، دیگر 20کے کیسوں میں یا تو تحقیقات رکی ہوئی ہے، یا پھر وہ سرد خانے میں پڑے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان 25کیسوں میں سے صرف کانگریس کے دو سابق ایم پی جیوتی مردھا اور وائی ایس چوہدری کے کیس ایسے ہیں، جن میں ان کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد بھی کوئی نرمی دکھائے جانے کا ثبوت نہیں ملا۔
رپورٹ کے مطابق جن رہنماؤں نے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ان میں کانگریس کے 10، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور شیو سینا کے چار چار، ترنمول کانگریس کے تین، تیلگو دیشم پارٹی سے دو، سماج وادی پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ایک ایک رہنما شامل ہیں۔
اس فہرست میں 6ایسے رہنما شامل ہیں، جو عام انتخابات سے چند ہفتے قبل اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سالوں میں پارٹیاں بدلنے والے لیڈروں میں اجیت پوار، پرفل پٹیل، اشوک چوان، ہمنتا بسوا شرما، سویندوادھیکاری، پرتاپ سرنائیک، حسن مشرف، بھاونا گوالی اور کئی دوسرے رہنما شامل ہیں۔
مودی حکومت کے ذریعے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی)، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن(سی بی آئی) اور محکمہ انکم ٹیکس(آئی ٹی) جیسے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے خلاف اپوزیشن جماعتیں گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں۔
حال ہی میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہیمنت سورین اور اروند کیجریوال کو ای ڈی نے گرفتار کیا ہے۔ کئی دوسرے رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے گئے ہیں اور انہیں پوچھ گچھ کیلئے بھی بلایا گیا ہے۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک صاف ستھری پارٹی ہے اور باقی تمام پارٹیاں بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ تاہم الیکٹورل بانڈ کے انکشافات نے بی جے پی کے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
ایک اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ای ڈی کے 95فیصد کیس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف تھے۔ رپورٹ کے مطابق 2014سے ستمبر2022کے درمیان 121اہم لیڈر ای ڈی کے نشانے پر آئے، جن میں سے 115اپوزیشن لیڈر تھے۔ تب سے یہ فہرست مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔