لاہور(پ ر) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے دبئی میں ہونے والے لاس اینڈ ڈیمیجز(ایل اینڈ ڈی) فنڈ کے پہلے اجلاس کے نتائج پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے UNFCCCپر زور دیا ہے کہ وہ فیصلہ سازی کے عمل میں سول سوسائٹی کی شرکت کو ترجیح دے۔
جاری پریس ریلی زمیں کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی تنظیموں کی شرکت پر پابندیاں اوران کو UNFCCCحلقہ گروپ کے دو مبصرین تک محدود کرنا گہری تشویش کا باعث ہے۔
شدید مون سون اور خشک سالی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کے طورپر پاکستان نے غیر متناسب طور پر گلوبل نارتھ کے اقدامات کا بوجھ اٹھایا ہے۔ پاکستان میں 2022کے سیلاب نے تباہ کن اثر ڈالا، جس کے نتیجے میں 1ہزار739اموات ہوئیں، 25لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، 4.4ملین ایکڑ فصلیں تباہ ہوئیں اور 2.2ملین گھر تباہ ہوئے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ تقریباً40ارب ڈالر ہے۔ مزید براں 4.5ملین افراد کو اب بھی انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ملک کے جی ڈی پی کو سیلاب کی وجہ سے 20فیصد نقصان ہوا ہے۔ 2023میں افراط زر کی شرح35فیصد تک بڑھ گئی، جس سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کیلئے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے، جو موسمیاتی بحران کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ ہم بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ لاس اینڈ ڈیمیجز سے نمٹنے کیلئے فوری کارروائی کرے اور ہمارے کسانوں اور زرعی کارکنوں کی مدد کیلئے مناسب موسمیاتی مالیات فراہم کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2022کے تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات پر غور کئے بغیر پاکستان پر آئی ایم ایف کی شرائط کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ 40لاکھ سے زیادہ لوگ اب بھی سڑکوں کے کنارے کیمپوں میں مقیم ہیں اور لاکھوں بچے اب بھی پینے کے صاف پانی تک رسائی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ایل اینڈ ڈی فنڈ ہماری جیسی کمزور کمیونٹیز کی ضروریات کو ترجیح دے اور کلائمیٹ فنانس دے جو قابل رسائی، مساوی اور منصفانہ ہو۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی عالمی ماحولیاتی تحریکوں اور سماجی تنظیموں کے ساتھ یکجہتی کرتی ہے، اورمطالبہ کرتی ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو متوجہ کرنے والی موسمیاتی کارروائی کی جائے۔ یہ ماحولیاتی انصاف کا وقت ہے۔