فارو ق سلہریا
سویڈن میں کچرے کی ری سائیکلنگ کا نظام بہت جدید ہے۔ سویڈن اپنے کچرے کا اسی فیصد سے بھی زیادہ ری سائیکل کرتا ہے۔ اس کے لئے نہ صرف ریاست ایسے منصوبوں پر خرچ کرتی ہے جن کا مقصد ری سائیکلنگ اور ماحولیات دوستی ہوتا ہے بلکہ عام شہریوں میں بھی ایک زبردست شعور موجود ہے۔
عوامی شعور کے بغیر کوئی بھی منصوبہ بہت کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آج کی اس مختصر تحریر میں پلاسٹک یا لوہے کی خالی بوتلوں کی ری سائیکلنگ پر بات کی جائے گی۔
کوکا کولا وغیرہ یابئیر کی خالی بوتلیں، وہ پلاسٹک کی ہوں یا فولاد کی، ان کی ری سائیکلنگ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مقامی دکان میں چلے جائیں۔ وہاں ایک ری سائیکلنگ مشین ہو گی۔ اس میں بوتلیں ڈالتے جائیں۔ جتنی بوتلیں ڈالیں گے، اتنے سویڈش کراؤن آپ کو مل جائیں گے۔ عموماً لیٹر والی کولا کی بوتل پر دو کراؤن اور چھوٹی بوتل پر ایک کراؤن ملتا ہے۔
عام طور پر گھر میں بچے خالی بوتلیں جمع کرتے رہتے ہیں۔ جب کافی بوتلیں جمع ہو جاتی ہیں تو وہ ان بوتلوں کو ری سائیکل کرکے اپنے لئے جیب خرچ حاصل کر لیتے ہیں۔
چھٹی یاساتویں جماعت میں بچے اپنے اسکول کی طرف سے کسی دوسرے ملک یا دور کسی شہر کی سیر کے لئے جاتے ہیں۔ اس سفر کے کچھ اخراجات تو اسکول برداشت کرتا ہے مگر کچھ پیسے بچوں کو اجتماعی طور پر جمع کرنے ہوتے ہیں۔ بچے یہ پیسے مختلف طرح کے کام کر کے جمع کرتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچے خالی بوتلیں جمع کرتے ہیں۔ اس صورت میں اپنے گھر کے علاوہ وہ جان پہچان والے پڑوسیوں کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ خالی بوتلیں ان کے حوالے کر دی جائیں۔ یوں ایک عملی انداز میں بچوں کی تربیت بھی ہو جاتی ہے اور بوتلوں کی ری سائیکلنگ بھی ہوتی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں بھی گلی محلوں میں ردی خریدنے والے، کباڑ یئے اور چھان بورا خریدنے والے چکر لگایا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ [شہر کی امیر آبادیوں میں، جہاں سب سے زیادہ ویسٹ یا کچرا پیدا ہوتا ہے، وہاں تو چھان پورے یا ردی والوں کو سیکیورٹی والے اب گھسنے بھی نہ دیں۔ خیر]۔
پاکستا ن میں شاید معاشی لحاظ سے بہت فائدہ مند بھی نہ ہو اور ممکن بھی نہ ہو کہ ری سائیکلنگ کی مشینیں لگائی جائیں مگر خالی بوتلوں کی ری سائیکلنگ ضرور ممکن ہے۔
ایک آسان حل یہ ہے کہ جو دکاندار مشروبات بیچتے ہیں، ان کو پابند کیا جائے کہ وہ صارفین سے خالی بوتلیں (چاہے پلاسٹک کی ہوں، لوہے کی یا شیشے کی) واپس لیں گے۔ مقامی دکانداروں سے یہ کچرا وصول کرنا اور ان کی ری سائیکلنگ ان بڑی کمپنیوں (جن میں بہت سی ملٹی نیشنلز ہیں) کی ذمہ داری ہونی چاہئے جو بوتلوں میں مشروبات فراہم کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی اہم بات ہے کہ مشروبات یا منرل واٹر مہیا کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ پلاسٹک کی بجائے شیشے کی بوتلوں میں مشروبات فراہم کریں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔