علیزہ اسلم
عالمی سرمایہ دارانہ نظام جو کہ معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، ماحولیاتی بحران، سامراجی جنگوں، ہجرتوں، قحط اور قدرتی آفات کا شکار ہے۔ جہاں اس نظام میں رہتے ہوئے انسانوں کو بے پناہ جبر اور مسائل کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب محنت کش عوام کے اندر اس جبر کے خلاف غم و غصہ بھی موجود ہے۔ جس کے باعث تمام ممالک کے اندر بہت سی چھوٹی بڑی تحریکیں بھی موجود ہیں۔
حالیہ عرصے میں ایران کے اندر جبری ڈریس کوڈ کے خلاف تحریک بنی۔ اسی طرح فرانس اور پاکستان میں بالخصوص بلوچ تحریک تھی۔ عالمی سطح پر فلسطین پہ ہونے والے سامراجی جبر کے خلاف ایک بڑی تحریک نظر آتی ہے۔ جس میں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک کے محنت کش عوام اور طلبہ وطالبات کے مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں، جن میں فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی جبر کے خلاف نعرہ بازی ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے برعکس سرمایہ دار طبقہ ہے، خواہ وہ مسلم ممالک کا سرمایہ دار طبقہ ہو جو کہ بچوں،بوڑھوں، خواتین اور مردوں کے اس قتل عام پر چپ سادھ کر بیٹھا ہے اور اسرائیلی جارحیت کے آگے سنگوں ہے۔
جہاں سامراجی جنگوں کے خلاف تحریک ابھرتی نظر آ رہی ہے وہیں پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں طبقاتی بنیاد پہ ایک سال کے لمبے عرصے پر محیط ایک تحریک گزری۔ اس تحریک کی سب سے زیادہ پر مسرت خوبی یہ تھی کہ اس تحریک میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ اس تحریک کے بنیادی مطالبات: مہنگی بجلی، مہنگے آٹے کے خلاف اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے تھے۔ عوامی حقوق تحریک نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن پُرامن طریقے سے عوام اپنے مطالبات کے حصول کے لیے بڑھتے رہے۔۔
جہاں اس تحریک کو پرامن طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے بجلی بلات کا بائیکاٹ کیا گیا وہیں اس تحریک کو پر تشدد بنانے کے لیے ریاست نے ہمیشہ کی طرح اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا اور پولیس کے ذریعے رات کے اندھیرے میں دھرنے اکھاڑے گئے اور انقلابی و مزاحمت کار سیاسی کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود عوام نے پرامن رہتے ہوئے پولیس کے اس گھٹیا عمل کے فورآ بعد دھرنوں کو دوبارہ آباد کیا۔ ان دھرنوں کو دوبارہ لگانے کے لیے خواتین بڑی تعداد میں ہر شہر میں نکلیں، راولاکوٹ سمیت مختلف مقامات پر دھرنوں میں بیٹھ کر پھر سے دھرنے لگانے کا اعلان کیا۔ سیاسی کارکنان کی غیر مشروط رہائی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ بنیادی مطالبات کے حصول تک مردوں کے شامہئں شانہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔
ریاست کی جانب سے ان مطالبات کو پورا کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی نہ دینے پر محتلف مظاہرے اور کئی بار شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوئی جس کو بعد میں تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جس کے مطابق پہلے مردوں کا احتجاج ریکارڈ ہوا جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کر کے ریاست کو بتا دیا کہ وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے۔ اس کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ۰۱ اکتوبر ۳۲۰۲ کو خواتین کے مظاہروں کی کال دی۔ جس کو روکنے کی کافی کوششیں کی گئی حتیٰ کہ سکول کالجز کی ٹیچرز اور طالبات کو بذریعہ نوٹیفکیشن اس احتجاج میں شامل ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جہاں ریاست اس طرح کہ اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہی تھی وہیں ایکشن کمیٹی کے بھی کچھ لوگ جو شاید اس اعلان کو کرنے کے بعد خوش نہیں تھے انہوں نے بھی بھرپور کوشش کی کہ اس احتجاج کو روکا جائے۔
خواہ وہ ریاست ہو یا یہاں کے رجعت پسند لوگ اس احتجاج کو نہ روک سکے اور ۰۱ اکتوبر کی صبح عوامی تحریک نے کروٹ بدلی تو پاکستان زیر انتظام کشمیر کے ہر شہر راولاکوٹ، ہجیرہ، باغ، مظفرآباد، کوٹلی اور میرپور میں خواتین کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ اس احتجاج میں ۰۹ سال کی عمر کی خواتین سے لے کر سات، آٹھ سال کی کمسن بچیاں بھی موجود تھیں۔ صرف شمولیت ہی نہیں بلکہ ہر خاتون انقلابی جذبات سے سرشار اس تحریک میں آخر دم تک مردوں کے شانہ بشانہ اپنے مطالبات کے حصول تک لڑنے کو تیار تھی۔
نہ صرف خواتین کے احتجاج میں بلکہ طلبہ کے احتجاج میں بھی ریاست کی جانب سے دیے گے نوٹیفکیشنز کو مسترد کرتے ہوئے طالبات نے شامل ہو کر یہ باور کروا دیا کہ کوئی بھی تحریک ہو وہ خواتین کی شمولیت کے بغیر نامکمل ہے۔ جیسا کہ ایک انقلابی خاتون نے کہا تھا:
”عورتیں معاشرت کا آدھا حصہ ہیں۔ آپ عورتوں کے بغیر انقلاب نہیں لاسکتے۔ آپ عورتوں کے بغیر جمہوریت نہیں لا سکتے۔ آپ عورتوں کے بغیر برابری نہیں لا سکتے۔ آپ عورتوں کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔”
ریاست نے تین ہفتوں بعد جہاں اسیران کو رہا کر دیا لیکن مطالبات کو پورا کرنے میں حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے جس کے بعد ایکشن کمیٹی کی جانب سے ۱۱ مئی کو مظفرآباد کی طرف قافلوں کی صورت میں جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد ریاست نے ایک دفع پھر سے پرامن تحریک کو پر تشدد بنانے کے لیے ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) اور پی سی(پنجاب کانسٹیبلری) کو طلب کر دیا۔ عوام کے اندر خوف وہراس پیدا کرنے کے لیے ۹ مئی کو ہی صبح سویرے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور مختلف رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن اس کے متضاد عوام نے ڈر کے بجائے زیادہ غم و غصّے کے ساتھ انقلابی جذبات سے سرشار صبح ہی خواتین و مرد، بوڑھے بچے تمام گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ گئے اور پولیس کی جانب سے تشدد، آنسو گیس اور شیلنگ کے باوجود ڈٹے رہے۔ ۹ مئی کو ہونے والے احتجاج میں نہ صرف نوجوانوں اور مردوں کی بڑی تعداد تھی بلکہ خواتین بھی شامل تھیں۔ ۹ مئی سے چودہ مئی تک، اس پانچ دن کی جدوجہد کے سفر میں خواتین ہر شہر سے آنے والے قافلوں میں موجود تھیں۔
یہ پانچ دن غیر معمولی واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ تحریکیں اپنی قیادت خود تراشتی ہیں اور اس دوران کچھ ایسا ہی تھا۔ جہاں ۹ مئی کو اپنے اپنے شہروں میں احتجاج کی کال دیتے ہوئے شٹر ڈاؤن کا علان کیا گیا اور لانگ مارچ کی کال کو واپس لے لیا گیا وہیں لوگوں نے اس کال کو مسترد کرتے ہوئے مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ ان غیر معمولی واقعات میں جہاں غریب ریڑھی بان کا اپنے سارے پھل دور سے آئے ہوئے قافلوں میں بانٹنا تھا، وہیں مشترکہ لنگر، قافلوں کے استقبال کے لیے جوس اور ہوٹلوں میں مفت رہائش کا انتظام کیا گیا۔ جہاں بے مثال لوگوں کی قربانیاں ہیں وہیں تحریکیں اپنی بلندی پہ شعوری طور پر اتنی بلند ہو جاتی ہیں کہ صنفی تفریق کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس معاشرے کی مظلوم پرت جو کہ ہمیشہ سے دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہے اس مظلوم پرت کی طرف ایک منفرد رویہ نظر آیا۔ جہاں تحریک کے دیگر محتلف مثبت پہلو تھے وہاں پہ اس تحریک میں خواتین کی شمولیت ان سب پہلوؤں سے زیادہ مثبت تھی۔ کیونکہ پہلے یہی قیادت ان کی طرف ایک ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے تھی جیسے یہ انسان نہیں بلکہ ایک جنس ہے۔ لیکن ان پانچ دنوں نے ان تمام رویوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
جہاں خواتین کے کو چار دیواری کے اندر قید رکھا جاتا تھا، جہاں عورت کے بولنے پہ پابندی تھی، جہاں عورت کی سیاست پہ فتوے لگائے جاتے تھے، وہیں ان پانچ دنوں کے دوران ایک عورت اپنے مسائل کے حل کے لیے نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کر رہی تھی بلکہ لاکھوں کے مجمع کے درمیان میں ٹھہر کر انقلاب کے نعروں سے عوام کو انقلابی جذبات کو پرجوش کر رہی تھی اور خوش آئند بات یہ تھی کہ ان نعروں کا جواب وہی لوگ دے رہے تھے جو کچھ دن قبل تک بھی یہی سمجھتے تھے کہ عورت صنفِ نازک ہے اور وہ جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتی۔
تحریکیں صنفی تفریق سے بالاتر ہو کر ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جب مسائل مشترکہ ہیں تو جدوجہد بھی مشترکہ کرنا لازم ہے۔ تحریکوں کے دوران صنفی تفریق کو پروان چڑھانا ریاست کی، اس سرمایہ دار طبقے کی ایک چال ہے اور عوام ان چالوں کا ہمیشہ سے شکار ہوتی آئی ہے۔ مذہبی شدت پسندی، رجعت، صنفی تفریق جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے ہی آج حکمران طبقہ وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ عوام ان تمام ہتھکنڈوں کا ساتھ دے کر خود ہی خود کو کمزور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں مرد کا مرد استحصال کر رہا ہے، عورت کا عورت حتیٰ کہ عورت بھی مرد کا استحصال کرتے دکھائی دیتی ہے۔۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ طبقات کی جنگ ہے۔ ایک امیر طبقہ ہے اور دوسرا غریب طبقہ۔جیسے امیر طبقہ جڑت اختیار کر کے غریب طبقے پر ظلم اور جبر کر رہا ہے، ویسے ہی غریب طبقے کو صنفی تفریق سے آزاد ہو کر ان سرمایہ داروں کے خلاف آخری لڑائی لڑنی ہو گی اور خود کو آزاد کروانا ہو گا۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی اس تحریک نے ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں سے آزاد ہو کر اس تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنے مسائل کا حل نکالا۔ ان پانچ دنوں کے غیر معمولی واقعات نے نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس تحریک میں نا صرف خواتین نے شمولیت اختیار کی بلکہ ایک خاتون کو اپنے حقوق کی لڑائی کی پاداش میں گرفتار بھی کیا گیا۔ خواتین نے اس تحریک کے دوران صنف آہن کا کردار ادا کیا اور اس ریاست کے ساتھ ساتھ ان رجعت پسند لوگوں کو جنہیں خواتین کی تعلیم، نوکری اور سیاست کرنے سے مسائل درپیش تھے یہ باور کروا دیا کہ خواتین شعوری طور پر اتنی بلند ہیں کے وہ اپنے بچوں کی انقلابی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی انقلاب کی راہ پہ نکل کر ایک خوشحال معاشرے کے قیام تک نہ تھکتے ہوئے نہ جھکتے ہوئے یہ لڑائی لڑ سکتی ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صنفی تفریق سے بالاتر ہوکر ہی اپنے مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہونا ضروری ہے۔ ورنہ آدھی آبادی کے بغیر نہ کوئی تحریک چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مطالبہ پورا ہو سکتا ہے۔ خواتین کی یہ جدوجہد نہ ہی پہلی تھی اور نہ ہی آخری ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے خواتین کی جدوجہد سے، بلکہ اصل لڑائی اب شروع ہوئی ہے۔ جب تک طبقاتی سماج رہے گا تب تک معاشرے کے اندر ناانصافی، مہنگائی، بدامنی، سامراجی جنگیں اور قحط اور بھوک برقرار رہے گی۔ اسی لیے اب تمام مرد و خواتین کو صنفی تفریق سے آزاد ہو کر غیر طبقاتی سماج کے قیام تک مسلسل لڑائی لڑتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور اس کے برعکس ایک انسانی سماج کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔