جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) اور ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ(آر ایس ایف) نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام 28جولائی کو گوادر کے مقام پر منعقد ہونے والے ’بلوچ راجی مچی‘(بلوچ قومی اجتماع) کے ساتھ یکجہتی کااظہار کیا ہے۔
مشترکہ طور پر جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہم بلوچ عوام کی نسل کشی، ریاستی جبر، ترقیاتی منصوبوں کے نام پر وسائل کی لوٹ مار، بلوچستان کو سکیورٹی کے نام پر فوجی چھاؤنی بنانے اور بلوچ محنت کشوں پر ہونے والے قومی و طبقاتی جبر و استحصال کے خلاف منعقد ہونے والے اس اجتماع کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
آج فلسطین سے بلوچستان، پختونخوا اور جموں کشمیر و گلگت بلتستان تک پوری دنیا اس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام، بالادست طبقات اور ریاستوں کے ہاتھوں بدترین جبرو استحصال کا شکار نظر آتی ہے۔ جوں جوں اس نظام کے بحران میں شدت آتی جا رہی ہے، دنیا کے اربوں محکوموں، مزدوروں اور نوجوانوں کی زندگیاں تلخ سے تلخ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی اس نظام کی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے ریاستی جبر اور سامراجیت کی ننگی جارحیت محنت کشوں اور نوجوانوں پر مسلط کی جا رہی ہے۔
بلوچستان پچھلے 75سال سے بالعموم اور پچھلی دو دہائیوں سے بالخصوص ظلم و بربریت اور قومی و طبقاتی جبرکی ایک درد بھری داستان بن کر سامنے آیا ہے۔ تعلیم کا یہ عالم ہے صرف 5 فیصد بچیاں سکول جا پاتی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے اعلی تعلیم کی کوئی قابل ذکر سہولت موجود نہیں ہے۔ مجبوراً ان نوجوانوں کو بلوچستان سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ وہاں بھی انہیں ریشل پروفائلنگ، پولیس گردی، جبری گمشدگیوں اور بدترین تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سب سے اگر بچ بھی جائیں تو ایف سی کے ہاتھوں حیات بلوچ کی طرح ماں باپ کے سامنے 16 گولیاں سینے میں اتار دی جاتی ہیں۔ علاج کی کوئی سہولت بلوچستان میں اس وقت موجود نہیں ہے اور غربت کے مارے بلوچ مرد اور خواتین کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نیا روزگار دینا تو درکنار، سرحدوں کو تالے لگا کر صدیوں سے ہونے والی تجارت سے پیدا ہونے والے لاکھوں لوگوں کے روزگار کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے پورا بلوچستان خوراک کی اس قدر شدید قلت کا شکار ہے کہ اکثریتی پچے سٹنٹد گروتھ کا شکا ر ہوچکے ہیں۔
اگرچہ یہ ریاست ایک سامراجی ریاست ہے،مگر اسکے حکمران طبقے کی اوقات ہمیشہ مختلف سامراجی لوٹ مار کے کمیشن ایجنٹ سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان کو چینی سرمائے کے ہاتھوں بیچا جا رہا ہے۔ نام نہاد میگا پراجیکٹس کے نام پر سامراجی لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ چل پڑا ہے، جس سے یہاں کے حکمرانوں کی تجوریاں تو بھریں گی مگر محکوم بلوچوں کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ گوادر پورٹ،جہاں گوادر کے رہنے والے بھی نہیں جا سکتے،کی وجہ سے ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار تیزی سے ختم ہورہا ہے اور وہاں مجود آبی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ تاہم اس خطے میں صرف چینی مفادات نہیں بلکہ امریکہ کی قیادت میں مغربی سامراجی ممالک اور کمپنیوں کے بھی سیاسی و معاشی مفادات موجود ہیں۔ وہ ریکوڈک میں موجود سونے کی آسٹریلوی کمپنیوں کے ہاتھوں لوٹ مار ہو، یا چین کی گوادر کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کو روکنا مقصود ہو،ان سا مراجی ہاتھیوں کے ٹکراو اور انکی پراکسی جنگوں میں معصوم بلوچوں کا قتل عام مسلسل جاری ہے۔
ہم بلوچ محکموں کی ہر قسم کے سامراجی قبضے کے خلاف لازوال جدوجہد کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور بلوچستان سمیت تمام محکوم قوموں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت کی جدوجہد میں عمل ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کا مقامی حکمران طبقہ کیسے اس سامراجی لوٹ مار میں نہ صرف برابر کا شریک ہے،بلکہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار بننے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ چند ماہ پہلے بلوچ خواتین اور نوجوانوں کا اسلام آباد میں دھرنہ ہو یا آج ہونے والا بلوچ راجی مچی،مقامی حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انکی وفاداری بلوچ محکوم اقوام کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے مالی مفادات اور اپنے طبقے کے ساتھ ہے۔ ہم بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف ہونے کریک ڈاون کے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور چیئر مین بی ایس او جیند بلوچ سمیت تمام اٹھائے گئے طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو فی الفور بازیاب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس جنگ میں بلوچستان کے حاکموں کی باقی سامر جی آقاؤں کے ساتھ ایک طبقاتی جڑت نظر آتی ہے۔بالکل ویسے ہی بلوچ محکوموں اور محنت کشوں کی باقی تمام محکوموں اور محنت کشوں کے ساتھ ہی جڑت بن سکتی ہے۔ دنیا میں صرف زیر دست طبقات ہی ایک دوسرے کا دکھ سمجھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ جس کا عملی نمونہ پھر ہم نے ماہ رنگ بلوچ، سمی بلوچ اور بیبو بلوچ کی قیادت میں ہونے والے اسلام آباد لانگ مارچ میں لازوال طبقاتی جڑت میں دیکھا۔ یہی وہ جڑت ہے جس سے یہ ریاست اور یہ نظام خوف زدہ ہے اور جانتا ہے کہ اگر یہ ناقابل تسخیر اتحاد وجود میں آگیا تو اس نظام کی یہ کھوکھلی ریاستیں ایک دن بھی نہیں ٹک سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات مسلسل ہمیں رنگ، نسل، زبان، قوم، مذہب اور فرقوں جیسے فروعی تعصبات میں الجھا کر ظالم اور مظلوم کے ابدی تضاد سے توجہ ہٹانے کی کوشس کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں حکمرانوں کے اس ناپاک اور مکروہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے فارمولے کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ اس اوزار(انقلابی پارٹی) کی تعمیر کو تیز کرنا ہوگا،جو اس استحصالی نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے یہاں ایک ایسا نظام قائم کرے، جس میں تمام قوموں کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق ملے اور طبقات جیسی لعنت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔