لاہور(جدوجہد رپورٹ)حکومت اور سکیورٹی اداروں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں 28جولائی کو منعقد ہونے والے بلوچ راجی مچی(بلوچ قومی اجتماع) کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ناکام بنا دیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پدی زِر گوادر میں غیر معینہ مدت تک دھرنا شروع کر دیا ہے۔
بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کیلئے حکومت نے بلوچستان بھر کی تمام مرکزی شاہراہوں کو بلاک کر کے قافلوں کو گوادر پہنچنے سے روک دیا۔ مختلف مقامات پر بلوچ قافلوں پر فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات بھی ہیں۔ فائرنگ کی زد میں آکر ایک شخص کی ہلاکت جبکہ درجنوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
‘بی بی سی’ کے مطابق بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اتوار کو فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور کم از کم دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
مکران ڈویژن کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔
اس حوالے سے صورتحال غیر واضح ہے تاہم اہلکار کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں سے دو افراد کو پیروں پر گولی لگی جبکہ ایک کو پیٹ پر گولی لگی تھی۔ اہلکار نے بتایا کہ جس شخص کو پیٹ پر گولی لگی وہ زخموں کی تاب نہ لاسکا۔
موبائل فون اور پی ٹی سی ایل نیٹ ورک بند ہونے سے گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم مستونگ میں دھرنے میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ ‘بلوچی راجی مچی’ میں شرکت کے لیے آنے والے لوگوں پر سکیورٹی فورسز نے بلاجواز فائرنگ کی جس کے باعث ایک شخص زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اتوار کو بیبرگ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ گوادر میں فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 8ہے، جبکہ ہفتے کو مستونگ میں زخمیوں کی تعداد 14 تھی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ قومی اجتماع میرین ڈرائیو پر منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وہاں بھی اجتماع منعقد نہ ہو سکا اور اب غیر معینہ مدت تک دھرنا شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
گوادر سے باہر سے آنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کو تلار کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے روکا ۔ تلار کی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حکومت نے شاہراؤں کو بند کرکے لوگوں کو گوادر جانے سے روک رکھا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاید رند نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں جلسے کی اجازت نہیں لی ہے۔
ہفتہ کے روز کوئٹہ سے گوادر جانے والے قافلے پر مستونگ میں فائرنگ اور گوادر کے لیے بلوچستان کے دیگر علاقوں سے جانے کی اجازت نہ دینے پر کوئٹہ شہر کے بعض حصوں کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حکومت کی جانب سے گوادر لوگوں کو جانے سے روکنے کے لیے شاہراہوں کی بندش اور اس کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کی وجہ سے بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں معمولات زندگی مفلوج رہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کی جانب سے رات گئے پریس ریلیز جاری کی گئی۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) پدی زِر گوادر میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے۔ اس سے قبل بلوچ راجی مچی صرف 28 جولائی کے دن ایک جلسے کی صورت میں ہونا تھا ،لیکن ریاستی دہشت گردی، بربریت اور وحشت کے سبب ہم اسے پدی زِر گوادر میں ایک غیر معینہ مدت کے لیے دھرنے میں منتقل کر رہے ہیں۔اس وقت گوادر میں کرفیو اور بربریت کے باوجودہزاروں لوگ بلوچ راجی مچی میں موجود ہیں ،جبکہ ہزاروں لوگوں کو تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے ،جو وہاں دھرنے کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ریاست نے گزشتہ 48 گھنٹوں سے گوادر سمیت پورے بلوچستان میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ نہتے عوام پر اندھا دھند فائرنگ، تشدد اور گرفتاریوں نے بلوچستان کو ایک مکمل جنگ زدہ خطے میں تبدیل کر دیا ہے۔ گوادر میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک مکمل بند ہیں اور مکمل کرفیو نافذ ہے۔
گوادر میں ایک طرف ریاستی بربریت اور وحشت تھی تو دوسری طرف نہتے اور پرامن عوام کا سمندر تھا۔پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا کہ انتظامیہ اور حکومت نے لیویز اور پولیس کو عام عوام پر اندھا دھند فائرنگ اور ہر بندے کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نامہ جاری کیا لیکن لیویز اور پولیس نے اس دہشت گردانہ حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کے بعد فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی) اور آرمی کے اہلکاروں نے براہ راست عوام پر اندھا دھند فائرنگ کی ،جس سے ایک شخص موقع پر ہی ہلاک جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے ہیں ،جن میں سے دو کی حالت خطرے میں ہے۔ سربندر سے آنے والے قافلے پر بھی ایف سی نے اندھا دھند فائرنگ کی لیکن خوش قسمتی سے سربندر کا قافلہ محفوظ رہا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم بلوچ عوام کے حوصلے، ہمت اور بہادری کو داد دیتے ہیں کہ وہ ریاست کی بدترین وحشت، بربریت، جبر کے سامنے ڈٹے رہے اور ہزاروں کی تعداد میں عوام نے بلوچ راجی مچی میں شرکت کرکے ریاستی دہشت اور وحشت کو مٹی تلے روند دیا ۔ عوام نے ثابت کر دیا کہ عوام ہی واحد طاقت اور قوت ہیں اور عوامی طاقت کے سامنے دنیا کی کوئی بھی طاقت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ آج بلوچ عوام نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کے اثرات کم از کم آنے والے سو سال تک ہمارے سماج پر رہیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ ہم ریاست کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی نااہلی اور کم عقلی نے ایک دن کے راجی مچی کو اب دھرنے میں تبدیل کردیا ہے اور اس بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔پہلا مطالبہ یہ ہے کہ جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے، تمام راستوں کو کھول کر ہمارے قافلوں کو گوادر آنے دیا جائے۔ دوسرامطالبہ یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں انہیں 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے ،وگرنہ یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے گا۔ ہم ان مطالبات پر ریاست کے ساتھ پدی زِر گوادر کے مقام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ریاست نے اب بھی عقل اور ہوش سے کام لینے کے بجائے پرامن عوامی اجتماع کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں حالات ریاست کے کنٹرول سے مکمل طور پر نکل جائیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچ عوام جس طرح ریاست کی وحشت اور طاقت کے مقابلے میں پرامن ہیں۔ اسی طرح آگے بھی پرامن رہیں اور اس کے ساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی کال کا انتظار کریں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکز گوادر سے بہت جلد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
دریں اثناء انگریزی زبان میں جاری ایک اور پریس ریلیز میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں سے بھی حمایت اور یکجہتی کی اپیل کی ہے۔
ادھر بلوچستان کی قوم پرست و ترقی پسند سیاسی جماعتوں، ملک بھر کی ترقی پسند تنظیموں اور ٹریڈ یونین رہنماؤں نے بلوچ راجی مچی پر ریاستی تشدد اور جبر کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے بلوچ عوام کو پر امن احتجاج اور اجتماع کا حق دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور آر ایس ایف نے بلوچ رہنماؤں کی گرفتاریوں، قافلوں کے راستے روکنے، فائرنگ کے ذریعے لوگوں کو زخمی کرنے اور مارنے جیسے اقدامات کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ تمام گرفتار رہنماؤں کو فوری رہا کیا جائے اور فائرنگ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچ عوام کو پرامن احتجاج کا حق استعمال کرنے دیا جائے۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہفتہ اور اتوار کو ہونے والے تمام واقعات کی کوریج مرکزی میڈیاپر مکمل طور پر بند رکھی تھی۔ بلوچستان میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے اصل صورتحال معلوم کرنے میں لوگوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مواصلات کے تمام ذرائع بند کر کے بلوچستان میں ہونے والے احتجاج اور عوامی مزاحمت کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر کے کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس جدوجہد میں بلوچ عوام اکیلے نہیں ہیں۔ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ملک بھر میں احتجاج کو پھیلانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔