واشنگٹن (جدوجہد رپورٹ) مورخہ 17 اگست 2024ء کو ساؤتھ ایشیا سالیڈیریٹی نیٹ ورک کے زیر اہتمام جموں کشمیر سالیڈیریٹی کانفرنس کا انعقاد ”جموں کشمیر میں عوامی مزاحمتی تحریک: ایک مشعل راہ“ کے عنوان سے واشنگٹن ڈی سی میں کیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جموں کشمیر کے تارکین وطن سمیت دیگر جنوب ایشیائی ممالک کے 100 سے زائدمرد و خواتین نے امریکہ کی مختلف ریاستوں سے شرکت کی۔
کانفرنس کے مقررین میں معروف انقلابی رہنما زاہد بلوچ، افغانستان کی خواتین کی انقلابی انجمن’راوا‘ کی سابق ترجمان سحر صبا، نوجوان دانشور اور ماہر سیاسی معاشیات ڈاکٹر دانش خان، زونل صدر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ڈاکٹر توقیر گیلانی، سابق سربراہ سفارتی شعبہ جے کے ایل ایف سردار انور ایڈووکیٹ، آرگنائزر ساؤتھ ایشیاسالیڈیرٹی نیٹ ورک فرہاد کیانی، ڈاکٹر اخلاق برلاس، پروفیسر رفیق بھٹی، فاؤنڈر ممبر ’کاوا‘ ذوالفقار روشن، بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان وسیم، رہنما اسحاق شریف اور دیگر شامل تھے۔ نظامت کے فرائض سابق سیکرٹری جنرل جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نوید لطیف نے ادا کئے۔
کانفرنس کی ابتدا میں فرہاد کیانی نے ساؤتھ ایشیا سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے اغراض و مقاصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں تقریباً دو ارب افراد کو بھوک، غربت، ناخواندگی، بے روزگاری اور صحت و صفائی کے مسائل کا سامنا ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلیاں، جنگیں، مذہبی انتہا پسندی اور قرضوں کے بوجھ ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔ انسانی اور جمہوری حقوق، خاص طور پر خواتین، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے حقوق، شدید خطرے میں ہیں، جس کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ملک ہجرت ایک عام عمل بن چکا ہے۔ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اپنے نئے ممالک میں ترقی پسند تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کرتے آئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اپنے آبائی ممالک اور علاقوں میں جاری جدوجہد سے بھی جڑے ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا سالیڈیریٹی نیٹ ورک ان تحریکوں کو متحد کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ مغری ممالک میں اپنی نسبتاً مراعات کو استعمال کرتے ہوئے تارکین وطن ان تحریکوں کے لیے حمایت اور یکجہتی حاصل کر نے کا موجب بن سکیں۔
سردار انور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک جموں کشمیر کی دونوں اطراف کے لوگ معاشی، سیاسی، غربت، جہالت اور افلاس کے جبر کا شکار ہیں اور یہ جبر اسی طرح افغانستان، پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکاکے لوگوں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں کشمیر کی معاشی اور قومی آزادی کا سوال پورے جنوبی ایشیا کی آزادی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سحر صبا نے افغانستان کی صورتحال اور خاص طور پر طالبان حکومت کے خلاف خواتین کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کافی عرصہ پہلے کہا تھا کہ افغانستان کے لوگ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ ایک ’سانحہ‘ ہے اور بدقسمتی سے یہ بات آج بھی درست ہے۔ امریکہ کے جانے کے بعد خوشیاں منائی جا رہیں تھیں کہ افغانستان میں نام نہاد امن قائم ہو چکا ہے لیکن حقیقت میں آج افغانستان کے اندر جو صورت حال ہے اس کو آپ ایک قبرستان یا ایک جیل سے تشبیہ دے سکتے ہیں، جہاں عام افراد اور خاص طور پر خواتین بنیادی زندگی گزارنے کی تمام مراعات سے محروم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ، لیکن پچھلے کئی سالوں سے افغانستان کے عوام نے بھی، کشمیریوں، فلسطینیوں اور دنیا کے ان تمام مظلوم طبقوں کی طرح جو کہ جبر کے اندر زندگی گزار رہے ہیں جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ اس جدوجہد میں ہم کتنے ہی تھوڑے لوگ کیوں نہ ہوں جو بات معنی رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد کے ساتھ کتنے عزم اور استقلال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور آخری تناظر میں تمام جدوجہدیں جڑی ہوئی ہیں اور ہم مل کر ہی اس بربریت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن عناصر کے گرد ساؤتھ ایشیا کے اندر سالیڈیرٹی استوار کی جا سکتی ہے ان میں تین عناصر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سب سے پہلا آزادی اظہار رائے ہے جس پر پورے جنوب ایشیا میں قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ دوسرا معاشی نا انصافی ہے، جس میں لاکھوں افراد روزگار کے مواقع سے قاصر ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ تیسرا موسمیاتی ناانصافی ہے جس سے نہ صرف پوری دنیا بلکہ جنوبی ایشیا کے لوگ خاص طور پر مختلف صورتوں سے اثر انداز ہو رہے۔ اور اس نیٹ ورک کے ذریعے ان عناصر پر عوام کو نہ صرف پورے جنوب ایشیا بلکہ اس سے آگے بھی جوڑ کر بھرپور طریقے سے لڑا جا سکتا ہے۔
دیگر مقررین نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام کی حالیہ جدوجہد پر روشنی ڈالی اور بات رکھی کہ کس طرح اس عمل سے سیکھتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل اور متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک، جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، نے ابتدائی لیکن بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس تحریک کے اہم مطالبات میں بجلی کے نرخوں میں کمی، گندم پر سبسڈی اور حکمران طبقے کے لیے مراعات کا خاتمہ شامل تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر سالیڈیرٹی کانفرنس کا مقصد نہ صرف اس فتح کا جشن منانا ہے، بلکہ اسے جنوبی ایشیا کی دیگر عوامی تحریکوں کے ساتھ جوڑنا بھی ہے۔ ہم پہلے ہی بنگلہ دیش میں طلبہ کی بہادرانہ جدوجہد دیکھ رہے ہیں اور اس سے قبل انڈیا میں کسانوں کی تحریکیں، سری لنکا میں عوامی بغاوت، افغانستان میں خواتین کی جدوجہد، پاکستان میں بلوچوں اور پختونوں کی جدوجہدیں ہمارے سامنے ہیں۔ بظاہر یہ تحریکیں الگ الگ نظر آتی ہیں، لیکن دراصل یہ ایک دوسرے سے گہرائی میں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ کانفرنس ان تحریکوں کے درمیان یکجہتی قائم کرنے اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک اور دیگر علاقوں میں جاری ترقی پسند جدوجہد کے ساتھ روابط بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔
کانفرنس کے آخری مقرر زاہد بلوچ نے تمام بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ساؤتھ ایشیا سالیڈیریٹی ابھی اپنی نوزائیدا صورت میں ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہر طرح کی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ ایک طرف ریاستوں اور حکمران طبقات کی سفارتکاری کا عمل ہے، جس کا مقصد محنت کشوں کا استحصال اور اس نظام کو دوام بخشنے کے ساتھ ساتھ محکوم قوموں کی غلامی کو طوالت دینا ہے۔ ہم اس سفارتکاری کے مقابلے میں محنت کشوں اور اکثریتی عوام کی سفارتکاری کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے یہ اقدام اٹھا رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد جنوب ایشیا کے ترقی پسند تارکین وطن کو متحد کرنا اور جنوب ایشیا میں جاری عوامی تحریکوں کی حمایت اور یکجہتی کے ساتھ ساتھ اس جدوجہد کو بین الاقوامی بنیادوں پر منظم کرنا ہے۔ اسی لئے ہم نے یہ واضح اعلان کیا ہے کہ ہم کسی بھی ریاست یا سفارتخانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور عوام کے نمائندے اور سفیر بنتے ہوئے محکومی اور استحصال کی ہر شکل کے خاتمے کی جدوجہد کو استوار کریں گے۔
انکا کہنا تھا کہ اس نیٹ ورک کے قیام کیلئے ہم عوامی فنڈز پر انحصارکریں گے۔ کسی ریاست، سفارتخانے، این جی او یا سرمایہ دار کے فنڈز کی بنیاد پر اس جدوجہد کو استوار نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں کی نجات کی جدوجہد کی جاتی ہے، انہی کی توانائیاں بھی صرف ہوتی ہیں۔ اس لئے ہم عوامی فنڈ اور شمولیت کی بنیاد پر اس نیٹ ورک کو پھیلائیں گے۔ نہ صرف جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہدکو آگے بڑھائیں گے، بلکہ برصغیر جنوب ایشیا کی تمام محکوم قوموں کی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جدوجہد کو جاری و ساری رکھیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ آج محض سیاسی اور معاشی مسائل کے حل تک بات باقی نہیں رہی ہے۔ حکمران طبقات نے اس کرۂ ارض پر زندگی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جب تک یہ نظام باقی ہے، کرۂ ارض کو ان خطرات سے بچایا نہیں جا سکتا۔ ماحولیاتی بربادیوں کا سب سے زیادہ شکار جنوب ایشیائی ممالک اور پسماندہ ملک ہیں۔ اس لئے ہماری حتمی لڑائی اس نظام کے خلاف ہے۔ اس نظام کو توڑے بغیر نسل انسان کی اور زندگی کی بقا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے آخر میں شرکا کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔