خبریں/تبصرے

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ’سٹیزن جرنلزم‘ پر پابندی کا حکم نامہ

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں صحافیوں کیلئے بنائے گئے ایک سرکاری فلاحی ادارے کی جانب سے سرکلر جاری کرتے ہوئے شہری صحافت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور صحافیوں کو بھی کسی میڈیا ادارے کی جانب سے رپورٹ کئے جانے والے مواد کو ہی شیئر کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

اسسٹنٹ سیکرٹری پریس فاؤنڈیشن سید بشارت حسین کاظمی کی طرف سے جاری کئے گئے اس سرکلر میں کہا گیا ہے کہ پریس فاؤنڈیشن ایکٹ و رولز میں طے شدہ صحافتی ضابطہ اخلاق کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم، تاجر ایسوسی ایشن کا عہدیدار، وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، سیاسی جماعت کا عہدیدار یا صر ف سوشل میڈیا سے منسلک ہونے کی بنیاد پر خود کو صحافی کہلوانے والا کسی بھی رجسٹرڈ صحافی ادارے کا ممبر نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں صحافیوں کیلئے لازم ہے کہ وہ صرف وہی خبر یا تصویر سوشل میڈیا پراپ لوڈ یا شیئر کر سکتے ہیں جو کسی اخبار میں شائع یا کسی نیوز چینل پرنشر ہوئی ہو۔

واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں صحافیوں کی فلاح کیلئے ”آزاد جموں و کشمیر پریس فاؤنڈیشن“ کے نام سے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا، جو بعد ازاں صحافیوں کو ریگولرائز کرنے اور پریس کلبوں کو رجسٹرڈ کرنے کے علاوہ صحافتی ضابطہ اخلاق بنانے تک بااختیار کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ ادارے کا چیئرمین عدالت العالیہ کا ایک جج ہوتا ہے، جبکہ وائس چیئرمین کو ان صحافیوں کی طرف سے منتخب کیا جاتاہے جو اس فاؤنڈیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں، فاؤنڈیشن کے دیگر عہدیداران میں محکمہ اطلاعات کے اراکین بھی شامل ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس ادارے کی جانب سے شہری صحافت کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔

فاؤنڈیشن کی ممبر شپ صرف وہی صحافی حاصل کر سکتا ہے جس کو میڈیا ادارے کی طرف سے باضابطہ تنخواہ دی جاتی ہو، فری لانس یا بغیر تنخواہ کام کرنے والے صحافی اس فاؤنڈیشن کے ممبر نہیں بن سکتے ہیں۔ ان سخت قوانین کے باوجود اس فاؤنڈیشن کے اکثریتی ممبر ایسے صحافی ہیں جنہیں کسی ادارے کی طرف سے تنخواہ تو نہیں ملتی تاہم وہ حکومت اور اداروں کی ’گڈ بک‘ میں شامل ہوں یا پھر ان کے پاس اچھی سفارش موجود ہو۔ تاہم اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کو پریس فاؤنڈیشن کی ممبرشپ سے محروم رکھا جاتا ہے اور ایسے ہی ان صحافیوں کو پریس کلبوں کی ممبرشپ سے بھی بغیر کوئی وجہ بتائے محروم کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حساس علاقوں بالخصوص کنٹرول لائن سے متعلق رپورٹنگ کرنے کا اختیار بھی صحافیوں کو حاصل نہیں ہوتا، کنٹرول لائن پر کشیدگی یا کنٹرول لائن پر بسنے والی آبادی کے مسائل سے متعلق کوئی بھی خبر، رپورٹ، تجزیہ یا فیچر ’آئی ایس پی آر‘ کی منظوری کے بغیر کسی بھی رجسٹرڈ صحافتی ادارے میں شائع نہیں ہو سکتا۔ تاہم سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلوں کے ذریعے شہری صحافت پروان چڑھ رہی ہے جس کے ذریعے سے اس طرح کے حساس ایشوز پر وقتاً فوقتاً معلومات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جسے روکنے کیلئے نئے سرے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

پریس فاؤنڈیشن کی جانب سے حالیہ سرکلر ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں پاک فوج کے دستے مبینہ طور پر تربیتی مشقوں کے سلسلے میں موجود ہیں، سیاحتی مقام تولی پیر، کھائی گلہ، جامعہ پونچھ کے ایک کیمپس سمیت مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں فوجی کیمپ قائم کئے گئے ہیں اور بلند و بالا سیاحتی مقامات پر کئی سالوں سے بند مورچے دوبارہ بحال کئے جا رہے ہیں۔ تاہم میڈیا میں ان مشقوں سے متعلق کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ شہریوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے سوالات اٹھائے جانے کے بعدکمشنر پونچھ ڈویژن نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز اور تبصرے کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا، لیکن شہریوں کے سوالات پر کوئی وضاحت تاحال سامنے نہیں آ سکی ہے۔

سرکلر کی اجرائیگی کے بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں کی جانب سے اس اقدام کو آزادی اظہار رائے پر پابندی سے تعبیر کرتے ہوئے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور فوری طو ر پر یہ سرکلر واپس لینے اورسنسرشپ اور آزادی اظہار رائے پر قدغنیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔