آتش خان
عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے جہاں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کی صورت محنت کشوں کے بنیادی معاشی ضرورت کا حصول آسان بنایا،وہاں محنت کشوں، نوجوانوں اور خوتین کو نئی فکر،اعتماد اور حوصلہ بھی دیا۔تحریک نے مایوسی، لاچاری، بے بسی اور خوف کو شکست دے کر بہتر مستقل کی امید، آزادی اور انقلاب کی امنگ پیدا کی۔لاکھوں انسانوں میں زندگی کی نئی روح بیدار کی۔اس تحریک نے عوام کو یہ سبق سکھایا کہ جدوجہد کے ذریعے ہی حق لیا جا سکتا ہے۔اجتماعی جدوجہد کے ذریعے معاشی حقوق کے ساتھ بنیادی انسانی جمہوری حقوق بھی چھینے جا سکتے ہیں۔سستی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے،تو مفت بجلی، تعلیم علاج اور روزگار کا حق بھی چھینا جا سکتا ہے۔نیشنل گریڈ سٹیشن کا قیام،بجلی کے تمام ڈیموں اور دیگر وسائل پر حق ملکیت،جموں کشمیربینک کو سٹیٹ بینک کی حیثیت اور نوآبادیاتی ایکٹ 74 سے چلنے والی اسمبلی کی بجائے آئین ساز اسمبلی کے حق سمیت اظہار رائے کی آزادی بھی لی جا سکتی ہے۔اس سے بڑھ کر قابض افواج کا انخلا اور انقلاب کے ذریعے نظام کو شکست دینا بھی ممکن ہے۔یہی وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کا اجتماعی طاقت پر اعتماد ہے جس سے پاکستانی ریاست اور مقامی اشرافیہ خوفزدہ ہے۔
محنت کش عوام کی اجتماعی جدوجہد اور طاقت کے ذریعے عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی مقامی اشرافیہ اور ان کے سامراجی آقاؤں، پاکستانی سول اور فوجی اشرافیہ کو پاگل پن کا شکار کر دیا ہے۔شکست خوردہ حکمران طبقے کی نمائندہ ریاست عوام سے اپنی شکست کا بدلا لینے کے لیے سماج کو مذہنی اور فرقہ وارانہ فسادات اور خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہی ہے۔اس خطے میں مذہبی فرقہ واریت پاکستان کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم اب فرقہ وارانہ تعصبات اُبھارنے کے لیے بے شمار توہین کے مقدمے درج کیے گئے۔شیعہ سنی فسادات کو بھڑکانے کے لیے نہ صرف کالعدم تنظیموں کو متحرک کیا گیا ہے،بلکہ ریاستی سرپرستی میں سوشل میڈیا پیجز اور آئی ڈیز بنائی گئی ہیں جن کے ذریعے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے۔تحریک میں سرگرم ترقی پسند اور آزادی پسند کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف مذہب کو استعمال کرتے ہوئے منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔جبر اور سیاسی بنیادوں پر لڑائی میں شکست کے بعد مزاحمتی سیاسی کارکنوں کے خلاف مذہبی مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔سامراجی ریاست پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والی ترقی پسند قوتوں کو جبر کے ذریعے تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
سیاسی مقدمات میں گرفتار رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف جب ہزاروں کی تعداد میں نوجوان خواتین اور محنت کش سڑکوں پر نکل آئے تو ریاست کو محنت کشوں کے ہاتھوں ایک اور شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔محنت کش عوام نے نہ صرف حکمران طبقے کے ریاستی جبر کو شکست دی،بلکہ ان کی سیاسی چالوں، مذہبی،صنفی اور علاقائی تعصبات کو بھی شکست دی۔تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد رینجرز کی فائرنگ کے ذریعے نہتے کشمیری نوجوانوں کا قتل کیا گیا۔ پاکستانی محنت کشوں کی حمایت اور طبقاتی یکجہتی کو ختم کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر جموں کشمیر کے عوام کے خلاف نسل پرستانہ تعصب پر مبنی نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔عوام کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے پاکستانی ریاست کی طفیلی حکمران اشرافیہ کو استحکام پاکستان ریلیوں کا ہدف دیا گیا جس میں بری طرح ناکامی کا سامنا ہوا۔مسلم کانفرنس، پیپلز پارٹی سمیت سامراج نواز دیگر پارٹیاں سیکڑوں افراد کو بھی ریلیوں میں لانے میں ناکام رہیں۔اس کے بعد حکمران طبقے نے کروڑوں روپے خرچ کر کے میلوں اور کھیلوں کے ذریعے پاکستانی قوم پرستانہ زہر عوامی ذہنوں میں بھرنے کی کوشش کی جسے عوام نے آزادی، خودمختاری اور انقلاب کے نعروں کے ذریعے مسترد کیا۔
براہئ راست ریاستی تشدد کے ذریعے تحریک میں سرگرم ترقی پسند رہنماؤں اور کارکنان کو کچلنے میں ناکامی کے بعد حکمران اشرفیہ کے پالتو غنڈوں کے ذریعے عوامی حقوق تحریک کے مقبول نوجوان رہنما سردار امان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جب وہ اس حملے کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے گئے تو پولیس نے انہیں انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت گرفتار کر دیا گیا۔اس کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے شوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیجز سے سردار امان کے خلاف مذہبی پروپیگنڈہ شروع کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔لبریشن فرنٹ کے زونل صدر توقیر گیلانی پر توہین کا مقدمہ درج کیا گیا اور پاکستانی خفیہ اداروں کی سرپرستی میں چلنے والی پراکسی مذہبی کالعدم تنظیموں کے ذریعے قتل کی دھمکیاں اور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ریاستی سرپرستی میں جاری اس پروپیگنڈے، مقدمات اور دھمکیوں کی وجہ سے توقیر گیلانی کو ملک چھوڑنا پڑا۔کالعدم تنظیموں کی طرف سے جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے سابق صدر لیاقت حیات کے خلاف بھی اسی قسم کی مہم جاری ہے۔
گزشتہ دنوں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر ارسلان شانی اور مرکزی رہنما عاصمہ بتول کے خلاف کلکتہ میں لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کے خلاف ایک نظم فیس بک پوسٹ پرکرنے کی وجہ سے توہین مذہب کی ایف آئی آر زدرج کی گئیں۔عاصمہ بتول کو 26 اگست کو بیان قلم بند کروانے کے لیے بلا کر گرفتار کیا گیا۔ارسلان شانی اور عاصمہ بتول کا بھی اس تحریک میں اہم کردار تھا۔ارسلان شانی دوران تحریک گرفتار بھی رہے جنہیں عوامی احتجاج کے نتیجے میں رہا کرنا پڑاتھا۔
ریاست عوامی حقوق تحریک کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ محنت کش عوام کو مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات میں تقسیم کیا جائے۔آزادی پسند انقلابی قوتوں کی موجودگی محنت کش عوام کو دوبارہ ان تعصبات میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔اس ریاست کی جانب سے سب سے پہلے انقلابی قوتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوام پر براہئ راست ریاستی جبر کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔محنت کش عوام کے اتحاد اور انقلابی قوتوں کی موجودگی میں محنت کش عوام نے جو حاصلات آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں حاصل کی ہیں،ان کو چھننا ممکن نہیں ہے۔ایک سال بجلی بلوں کا بائیکاٹ جاری رہا اس دوران ریاست کی بجلی کنکشن کاٹنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔عوام کو منظم کرنے والی ان انقلابی قوتوں کو کافر اور غدار قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا تو بجلی مہنگی ہونے کے باجود بل نہ ادا کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا اور سزائیں دی جائیں گی۔محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی اس سازش سے لڑنے کے لیے قوم پرست اور ترقی پسند قوتوں کو یونائیٹڈ فرنٹ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے بنیادی جمہوری حقوق کے حصول کے لیے لڑا جاسکے۔ریاست اور اس کی پروردہ سیاسی اور مذہبی فاشسٹ قوتوں کو شکست دیتے ہوئے سماج کو بربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔