پشاور(پ ر)09 فروری 2025 کو پشاور پریس کلب میں ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف)کے زیر اہتمام”طلبہ یونین بحالی“کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت چیئرمین آر ایس ایف پشاور یونیورسٹی ساحل باچا نے کی۔ سٹیج سیکرٹری کی فرائض آر ایس ایف پختونخوا کے رہنما ناموس خان نے ادا کیے، جبکہ مہمانان خاص میں آر ایس ایف کے مرکزی آگنائزر اویس قرنی، مشال خان شہید کے والد اقبال لالہ، صوبائی صدر نیشنل پارٹی پختونخواہ ڈاکٹر سرفراز خان، سابقہ ممبر قومی اسمبلی و مرکزی رہنما نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ جمیلہ گیلانی، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے سینئر نائب صدر غفران احد ایڈوکیٹ شامل تھے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز سروا اور ملالہ نے اجمل خٹک کی انقلابی نظم سے کیا۔ مہمانان کے علاوہ آر ایس ایف پشاور کے آرگنائزر اسلام الدین، جنرل سیکرٹری پشاور یونیورسٹی پختونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن طارق شاہ، صدر اسلامیہ کالج پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن حفظان اللہ، صدر ڈومیل وزیر سٹوڈنٹس سوسائٹی پشاور یونیورسٹی ضیا الرحمن، وائس چیئرمین آر ایس ایف پشاور یونیورسٹی نوازش علی، آرگنائزر آر ایس ایف خیبر میڈیکل یونیورسٹی خلیق دیامری، رہنما گلگت بلتستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن عابد، سٹی چیئرمین جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن راولاکوٹ حنان بابرنے خطاب کیا۔
مقررین نے ضیائی آمریت اور اس کے بعد کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کی جانب سے طلبہ یونین پر بدستور قائم پابندی کی منافقانہ روش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور طلبہ یونین کے فوری الیکشن شیڈول جاری کرنے مطالبہ کیا۔ سابق طلبہ رہنماؤں نے طلبہ یونین اور طلبہ سیاست کی تاریخ اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کانفرنس کے انعقاد پر نوجوانوں کو سراہا۔ مختلف اداروں سے شریک طلبہ رہنماؤں نے مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کے بڑے پیمانے پر انعقاد کے عزم کا اظہار کیا، جبکہ آخر میں صدر تقریب ساحل باچا نے مطالبات پر مبنی قرار داد پڑھی جس کو شرکا کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ تقریب کا باقاعدہ اختتام محنت کشوں کے عالمی ترانے سے کیا گیا۔ اور بعد ازاں شرکا نے طلبہ یونین بحالی اور الیکشن شیڈول کے اجرا کے لیے احتجاجی ریلی نکالی۔
متفقہ طور پر منظور شدہ قرار داد:
- نجی و سرکاری یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کی فیسوں میں اضافے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پچھلے تین سال کے دوران کیا گیا اضافہ واپس لیا جائے۔
- آئی ایم ایف کی ایما پر سرکاری تعلیمی اداروں بشمول سکولوں کی کلی یا جزوی نجکاری کا عمل فوراً بند کیا جائے اور نجی تحویل میں دئیے گئے اداروں کو واپس قومی تحویل میں لیا جائے۔ نظام تعلیم پر اجارہ دارانہ یا حاوی حیثیت رکھنے والے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے اساتذہ و طلبہ کی منتخب کمیٹیوں کے تحت چلایا جائے۔
- ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے جی ڈی پی کا کم از کم 10 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے اور ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یونیورسٹی بجٹ اور آڈٹ رپورٹ تک طلبہ کی رسائی ممکن بنائی جائے۔
- بنیادی تعلیم سے محروم اور چائلڈ لیبر کے شکار ڈھائی کروڑ سے زائد بچوں کو معقول وظیفہ جات کے ذریعے تعلیم کی طرف راغب کیا جائے اور سکولوں میں دو وقت کی صحت بخش غذا بالکل مفت فراہم کی جائے۔
- ہراسانی کے واقعات کی تحقیقات کے لئے طلبہ کی شمولیت پر مبنی ایک بااختیار اور آزاد کمیشن بنایا جائے۔ جس کی رپورٹس کو پبلک کیا جائے۔ تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں انسدادِ ہراسانی (Anti Harassment)کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں جمہوری انداز سے منتخب طلبہ (بالخصوص طالبات) کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
- سکیورٹی اور ڈسپلن سمیت تعلیمی اداروں کے انتظامی و تدریسی امور کی انجام دہی کے لئے پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور شفاف ریکارڈ کے حامل سویلین افراد ہی بھرتی کیے جائیں۔ طلبہ کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر ناروا اور امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور تمام تعلیمی اداروں کو ڈی ملٹرائز کرتے ہوئے رینجرز اور ایف سی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دخل اندازی بند کی جائے۔
- بنیادی حقوق اور انصاف کے حصول کی خاطر احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف تادیبی / انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ بند کیا جائے، ایسی ایف آئی آرز فوری طور پر واپس لی جائیں اور تمام اسیر طلبہ کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
- علی وزیر سمیت تمام سیاسی اسیران پر بوگس و بے بنیاد مقدمات خاتمہ کرتے ہوئے فوری رہا کیا جائے۔
- جبری گمشدگی کے شکار طلبہ کو فوری بازیاب کیا جائے۔ طلبہ رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات‘ فورتھ شیڈول سمیت دیگر تمام سامراجی قوانین کا استعمال بند کیا جائے۔
- تمام دور دراز‘ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹیوں کا قیام یقینی بنایا جائے اور بڑے شہروں کے اداروں میں ان علاقوں سے آنے والے طلبہ کا کوٹہ بڑھایا جائے۔
- تعلیمی نصاب سے رجعتی، نفرت انگیز اور شدت پسند انہ مواد حذف کیا جائے۔ نظام تعلیم کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے اور سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں معیار تعلیم اور سہولیات کی تفریق ختم کی جائے۔
- مفت اور معیاری ٹرانسپورٹ، لائبریری، انٹرنیٹ، ہاسٹل اور میس جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
ہاسٹلوں کی تعداد اور گنجائش میں طلبہ کی تعداد کے مطابق خاطرخواہ اضافہ کیا جائے۔ ہاسٹلوں کے اوقات کار پر قدغنوں کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں طلبا و طالبات کے لئے یکساں کیا جائے۔ - تعلیمی اداروں میں قوم، زبان، صنف یا مذہب کی بنیاد پر طلبہ کے ساتھ تعصب، امتیازی سلوک اور ہراسانی کو بند کیا جائے۔
- تعلیمی اداروں میں بنیاد پرست تنظیموں کی آبیاری اور پشت پناہی کا عمل بند کیا جائے۔ انتظامیہ اور فیکلٹی میں ایسی تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔
- تمام فارغ التحصیل طلبہ کو باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر سرکاری طور پر مقرر کردہ کم از کم اجرت کے مساوی بیروزگاری الاؤنس فراہم کیا جائے۔
- 13 اپریل کو مشال خان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے سالانہ عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ مشال خان کے قاتلوں پر ازسر نو مقدمات چلاتے ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
- افغانستان میں طالبان کی رجعتی حاکمیت سے تمام اعلانیہ و غیراعلانیہ تعلقات منقطع کیے جائیں اور وہاں خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کی سرکاری سطح پر مذمت کرتے ہوئے خواتین کی تعلیم کی بحالی کے لئے ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے۔
- امریکہ سمیت تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کی اطاعت و غلامی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے ان عوام دشمن قوتوں کو ملک سے بے دخل کیا جائے۔
- نسل کشی سے دوچار فلسطینی عوام کی آواز ہر عالمی پلیٹ فورم پر بلند کرتے ہوئے انہیں ہنگامی بنیادوں پر مالی، سیاسی، سفارتی امداد اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ دو ریاستی حل کی منافقت کو رد کرتے ہوئے اسرائیلی صیہونی ریاست کے وجود کے حق کو مسترد کیا جائے۔
- طلبہ یونین کو بحال کرتے ہوئے ملک بھر میں طلبہ یونین کے الیکشن کا شیڈول فوری جاری کیا جائے۔